یہاں ضمناً ایک وضاحت ضروری ہے‘ اور وہ یہ کہ قرآن مجید میں ’’سَارِعُوْا‘‘ اور ’’سَابِقُوْا‘‘ کے الفاظ بھی متعدد مقامات پر وارد ہوئے ہیں ‘ جیسے سورۂ آل عمران میں فرمایا: وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ(آیت ۱۳۳) ’’اور دوڑ لگاؤ اپنے ربّ کی مغفرت کی طرف!‘‘ اسی طرح سورۃ الحدید کی آیت ۲۱ میں فرمایا گیا: سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ’’ایک دوسرے سے آگے نکلو اپنے ربّ کی مغفرت کی طرف!‘‘’’سَارِعُوْا‘‘ اور ’’سَابِقُوْا‘‘ فعل ِامر کے صیغے ہیں. سورۃ المؤمنون کی آیت ۶۱ میں مؤمنین ِصادقین کے اوصاف کے ضمن میں یہ دونوں الفاظ خبریہ انداز میں فعل ِمضارع اور اسم ِفاعل کی صورت میں وارد ہوئے ہیں: اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ وَ ہُمۡ لَہَا سٰبِقُوۡنَ ﴿۶۱﴾ ’’یہی لوگ ہیں جو بھلائیوں کے لیے تیزگام ہیں اور اس راہ میں سب سے آگے نکل جانے والے ہیں‘‘. سَرِعَ ‘ یَسْرَعُ سے بابِ مفاعلہ کا مصدر ہے ’’مُسَارَعَۃٌ‘‘ اور سَبَقَ‘ یَسْبِقُ سے بابِ مفاعلہ ہی کا مصدرہے ’’مُسَابَقَۃٌ‘‘ اور یہ دونوں قریب المفہوم اور تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں. ان دونوں کا مفہوم ہے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں دوڑ لگانا. البتہ مسارعت و مسابقت اپنے اساسی مفہوم کے اعتبار سے عجلت پسندی سے قدرے مختلف شے ہے. واضح رہے کہ مسارعت اور مسابقت کا جذبہ بھی طبع ِانسانی میں ودیعت شدہ موجود ہے. چنانچہ ہر انسان دوسرے لوگوں سے آگے نکلنا اور بڑھنا چاہتا ہے. قرآن مجیدمسارعت و مسابقت کے اس جذبہ کے رُخ کو خیر کی طرف موڑ دینا چاہتا ہے. وہ انسان کو تعلیم دیتا اور تلقین کرتا ہے کہ ’’دُنیا‘‘ یعنی دُنیوی دولت و ثروت اور جاہ و حشمت کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی سعی و کوشش کرنے کے بجائے تم بھلائیوں میں ‘ نیکیوں میں‘ خیر میں‘ خدمت خلق میں‘ عبادات کی بجا آوری میں‘ دین کے احکام اور اس کے اوامر و نواہی کی تعمیل میں‘ دین کی دعوت وتبلیغ اور نشر واشاعت کی سعی و جہد میں اور اقامت دین اور غلبہ ٔدین کے لیے انفاقِ مال اور بذلِ نفس میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو. یہ اللہ کی مغفرت اور جنت کے شاہ درے ہیں.
البتہ ہر کام کے لیے مناسب تدریج بھی ضروری ہے اور اس کی جملہ شرائط کو پورا کرنے میں جو مناسب وقت لگنا چاہیے ا س کے ضمن میں صبر کا مظاہرہ بھی ضروری ہے . جیسے اگرنماز کو بہت جلدی جلدی پڑھا جا رہا ہو تو رسول اللہﷺ کے ارشاد کے مطابق ایسی نماز ادا نہیں ہوتی. چنانچہ ایک مرتبہ ایک بدوی مسلمان نے مسجد نبویؐ میں آ کر جلدی جلدی نماز پڑھ لی تو آپﷺ نے اس سے فرمایا: فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ (۱) ’’دوبارہ نماز پڑھ‘ اس لیے کہ تیری نماز ادا نہیں ہوئی‘‘. لہذا نماز کے ہر رکن کا حق پورے سکون اور ٹھہراؤ کے ساتھ ادا کرنا ضروری اور لازمی ہے. اسی طرح اگرچہ قرآن حکیم میں نمازِ جمعہ کے بارے میں فرمایا گیا : اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ (آیت ۹) جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ’’ـ جب نمازِ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاذان‘ باب وجوب القراء ۃ للامام والماموم فی الصلوات کلھا… وصحیح مسلم‘ کتاب الصلاۃ‘ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ وانہ اذا لم یحسن. جمعہ کے لیے بلایا جائے (اذان ہو جائے) تو اللہ کی یاد کے لیے دوڑو‘‘.لیکن تمام مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہاں سعی (فَاسْعَوْا) سے دوڑنا مراد نہیں ہے. اس لیے کہ نماز کے لیے دوڑ کر آنے سے رسول اکرمﷺ نے منع فرمایاہے‘ یہ وقار اور سکینت کے منافی ہے. لہذا یہاں سعی سے مراد لپکنا ہو گا. یعنی اپنے تمام کاموں سے ذہنی و عملی تعلق توڑ کر جمعہ کی نماز کے لیے لپکو اور ہمہ تن اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ.