وقوعِ قیامت اور اثباتِ قیامت کے ضمن میں منکرین کے اعتراضات‘ اشکالات اور شبہات کے جواب کا مطالعہ مکمل کرنے کے بعد اب ہمیں ان چار آیات(۱۶ تا ۱۹) کا مطالعہ کرنا ہے جن میں خطاب براہِ راست نبی اکرم سے ہے اور جن میں اوّلاً آپؐ کو تحصیل قرآن کے ضمن میں فرطِ شوق و اشتیاق کی بنا پر عجلت پسندی سے نہایت شفقت و محبت کے ساتھ روکاگیا ہے‘اور اس کے ساتھ ہی آپؐ کویہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ متن قرآن کے ضمن میں جمع و ترتیب اور مطالبِ قرآن کے ضمن میں تفتیش و تدقیق کے لیے آپؐ کوزحمت اور مشقت کی ضرورت نہیں ہے ‘ ان جملہ امور کی کامل ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر ہے. تو آیئے پہلے ان آیاتِ مبارکہ کا ایک سلیس و رواں ترجمہ سامنے رکھ لیں اور پھر اِن میں سے مقدم الذکر مضمون پر کسی قدر تفصیل کے ساتھ غور کریں.

لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚۖ۱۷﴾فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚ۱۸﴾ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ﴿ؕ۱۹﴾ 

’’(اے نبیؐ !)آپ اس (قرآن) کے ساتھ اپنی زبان کو (تیزی سے) حرکت مت دیا کیجیے کہ اسے جلدی سے حاصل کرلیں. یقینا ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کرنا اور اس کا پڑھوانا. تو پھر جب ہم اسے (فرشتے کی زبانی) پڑھ چکیں تو اس پڑھنے کی آپ (بھی ) پیروی کیجیے. پھر ہمارے ہی ذمہ ہے اس کی وضاحت بھی!‘‘

یہ بات اس سے پہلے عرض کی جا چکی ہے کہ قرآن مجید کا اسلوب خطبہ کا ہے اور خطبہ میں تحویل خطاب ہوتا رہتا ہے کہ ابھی خطیب کسی ایک جانب مخاطب تھا‘ پھر اس کا خطاب دوسری جانب ہو گیا.مزید برآں کبھی وہ حاضر کو غائب فرض کر کے گفتگو کرتا ہے او رکبھی غائب کو حاضرفرض کر کے گفتگو شروع کر دیتا ہے. سورۃ القیامۃمیں اس کی ایک نمایاں مثال زیر مطالعہ آیات کی صورت میں موجود ہے. اس لیے کہ یہ سورۂ مبارکہ ازاوّل تا آخر مختلف اسالیب سے منکرین ِقیامت کے ساتھ بحث و گفتگو اور ردّ و قدح پرمشتمل ہے‘ لیکن درمیان میں خطاب کا رُخ نبی اکرم کی جانب مڑ گیا. اس ضمن میں سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ اِس سورۂ مبارکہ کے اصل مضمون کے ساتھ اِس گفتگو کا ربط و تعلق کیا ہے! اس لیے کہ چاہے کسی سلسلۂ کلام میں کوئی بات ضمنی طور پر آئی ہو لیکن ظاہر ہے کہ کلام کے عمود کے ساتھ اس کا کوئی نہ کوئی ربط ضرور ہوتا ہے‘ خواہ وہ کتنا ہی ’’’خفی‘‘ ہو. چنانچہ اس سورۂ مبارکہ میں لوگوں کی گمراہی کا ایک اہم اور بنیادی سبب ’’حب عاجلہ‘‘ کو قرار دیا گیا ہے:

کَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ تَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَۃَ ﴿ؕ۲۱﴾ 
’’ہرگز نہیں‘ بلکہ (تمہاری گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ) تم عاجلہ کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہو.اور آخرت کو نظر انداز کر دیتے ہو.‘‘

یعنی انسان کی گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ ’’عاجلہ‘‘ یعنی دنیا سے دل لگا بیٹھتا ہے‘ اس لیے کہ اس کی لذتیں بھی فی الفور محسوس ہوتی ہیں اور انسان ان سے شاد کام ہوتا ہے اور اس کی کلفتیں اور اذیتیں بھی انسان کو فوری طور پر متاثر کرتی ہیں. گویا دنیا کا نفع بھی نقد ہے اور نقصان بھی. چنانچہ جب یہ ’’عاجلہ‘‘ انسان کا اصل مطلوب و مقصود بن جاتی ہے تو اس کائنات اور اس کی تخلیق کے وسیع ترین حقائق اور بلند ترین مقاصد انسان کی نگاہوں سے خود بخود اوجھل ہو جاتے ہیں اور انسان کا شعور ان سے محجوب ہو جاتا ہے. نتیجتاً وہ 
آخرت کو مختلف غلط تاویلات سے نظر انداز کر دیتا ہے‘ بلکہ اس پر اعتراضات‘ اشکالات اور شبہات وارد کرتا ہے‘ حتیٰ کہ اسے محالِ مطلق گردانتا ہے اور اس کا انکار کر دیتا ہے.

یہاں ایک نہایت لطیف لفظی مناسبت سے بات کا رُخ رسول اکرم کی طرف موڑ دیا جاتا ہے اور ارشاد ہوتا ہے : 
لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۶﴾ ’’(اے نبیؐ !) آپ قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں کہ اس کو جلدی سے حاصل کر لیں(یا یاد کر لیں)‘‘. یہاں عجلت کے ذکر سے اس عظیم حقیقت کی جانب اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ ’’عجلت پسندی‘‘ وہ چیز ہے جو خیر کے لیے بھی پسندیدہ نہیں ہے . بلکہ ’’سہج پکے سو میٹھا ہو‘‘ کے مصداق خیر اور نیکی کے کاموں میں بھی مناسب تدریج اور میانہ روی پیش نظر رہنی چاہیے‘ تب ہی ان میں تمکن و استحکام بھی پیداہوتا ہے اور نتائج بھی صحیح اور متوازن طور پر برآمد ہوتے ہیں. الغرض یہ تو ایک بڑے لطیف معنوی ربط کی بات تھی جس کے حوالے سے نبی اکرم کی طرف خطاب کا رُخ مڑ گیا.
البتہ یہاں عجلت پسندی کے متعلق یہ بات بھی نوٹ کر لی جائے تو مناسب ہو گا کہ قرآن حکیم اس کو انسان کی طبعی کمزوریوں میں شمار کرتا ہے. چنانچہ سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہوتا ہے : 
خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ مِنۡ عَجَلٍ ؕ (آیت ۳۷’’انسان جلد باز پیدا کیاگیا ہے‘‘.

یعنی انسان کی خلقت اور سرشت میں جلدبازی کا عنصر شامل ہے. یہ بالکل وہی اسلوب ہے جو سورۃ النساء میں وارد ہوا کہ : وَ خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا ﴿۲۸﴾ ’’اورانسان کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘. پس معلوم ہوا کہ انسان کی خلقت اور سرشت میں بعض پہلو ضعف کے ہیں ‘ جن میں سے ایک عجلت پسندی بھی ہے. چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا : وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ عَجُوۡلًا ﴿۱۱﴾ ’’اورانسان بہت جلد باز واقع ہوا ہے‘‘. اب ظاہر ہے کہ اگر اس عجلت پسندی کا رُخ شر اور نفس پرستی کی طرف ہو جائے تب تو اس کی تباہ کاری اور ہولناکی اظہر من الشمس ہے ہی‘ لیکن اگر عجلت پسندی کا رُخ خیر کی جانب ہو تب بھی یہ ایک غیر مطلوب اور ناپسندیدہ شے ہے. اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال سورۂ طٰہٰ میں آئی ہے . حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ نے طلب فرمایا تو آنجناب علیہ السلام وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گئے. اللہ تعالیٰ نے سوال کیا : وَ مَاۤ اَعۡجَلَکَ عَنۡ قَوۡمِکَ یٰمُوۡسٰی ﴿۸۳﴾ ’’اور کیوں جلدی کی تو نے اپنی قوم سے اے موسیٰ؟‘‘ یعنی تم وقت ِمقررہ سے قبل اپنی قوم کو چھوڑ کر کیوں آ گئے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواباً عرض کیا: قَالَ ہُمۡ اُولَآءِ عَلٰۤی اَثَرِیۡ وَ عَجِلۡتُ اِلَیۡکَ رَبِّ لِتَرۡضٰی ﴿۸۴’’(پروردگار!) وہ بھی میرے پیچھے پیچھے چلے آ رہے ہیں اور اے میرے ربّ! میں تو تیری طرف جلدی کر کے اس لیے آیا ہوں کہ تو راضی ہو جائے‘‘ . گویا وہ جو ایک مشہور مصرع ہے ؏ ’’تو میرا شوق دیکھ‘ مرا انتظار دیکھ!‘‘ اس میں تھوڑا سا تصرف کر لیجیے کہ ؏ ’’تو میرا شوق دیکھ‘ مرا اشتیاق دیکھ!‘‘یعنی میں تو اے ربّ! تیری ملاقات کے شوق میں جلدی کر کے پہلے آ گیا ہوں. لیکن اب اللہ تعالیٰ کا جواب ملاحظہ فرمایئے: قَالَ فَاِنَّا قَدۡ فَتَنَّا قَوۡمَکَ مِنۡۢ بَعۡدِکَ وَ اَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ ﴿۸۵﴾ ’’(اللہ نے) فرمایا تو(اے موسیٰ! تمہاری عجلت کا نتیجہ یہ نکل چکا ہے کہ) ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو فتنہ میں مبتلا کر دیا ہے اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے‘‘.معلوم ہوا کہ اگرچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عجلت اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور مخاطبۂ الٰہی سے شاد کام ہونے کے اشتیاق پر مبنی تھی‘ جو سراسر خیر اور ہراعتبار سے قابل ِتعریف جذبہ ہے‘ لیکن عالم ِواقعہ میں اس کا بھی ناپسندیدہ نتیجہ ظاہر ہوا.

اسی سورۂ طٰہٰ میں نبی اکرم سے خطاب کر کے فرمایا گیا: 
وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّقۡضٰۤی اِلَیۡکَ وَحۡیُہٗ ۫ وَ قُلۡ رَّبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا ﴿۱۱۴﴾ ’’اور(اے نبیؐ !) آپ جلدی نہ کریں قرآن کے حاصل کر لینے میں جب تک پورا نہ ہو چکے آپ کی طرف اس کا اترنا‘ اور آپ دُعا کریں: اے میرے ربّ! میرے علم میں اضافہ فرما!‘‘ یعنی اے نبی ! آپ کا ذوق و شوق ہمارے علم میں ہے. آپ کا یہ اشتیاق اپنی جگہ! لیکن ہم نے نزولِ قرآن کے لیے ایک ترتیب اور ایک تدریج مقرر کر رکھی ہے. ہماری حکمت ِ بالغہ میں اس کا جو بھی وقت ِمعین ہے‘ اس کا نزول اسی کے مطابق ہو گا. رہی علم کی وہ پیاس جو آپ کو اپنے قلب ِمبارک میں شدت کے ساتھ محسوس ہوتی ہے‘ تواس کے لیے آپ دعا کرتے رہا کیجیے کہ ’’اے میرے ربّ! میرے علم میں اضافہ فرما!‘‘

سورۂ مریم میں یہی مضمون اس انداز میں وارد ہوا ہے کہ آنحضور کے شوق و اشتیاق اور وحی کے انتظار کے متعلق حضرت جبرائیل علیہ السلام سے کہلوایا گیا: 
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمۡرِ رَبِّکَ ۚ لَہٗ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡنَا وَ مَا خَلۡفَنَا وَ مَا بَیۡنَ ذٰلِکَ ۚ وَ مَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا ﴿ۚ۶۴﴾ ’’اورہم آپ کے ربّ کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہو سکتے. جو کچھ ہمارے سامنے ہے اس کا اختیار بھی اُسی کو ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اس کا اختیار بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے‘ اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس کا اختیار بھی (کلیتاً) اسی کے پاس ہے. اور آپؐ کا ربّ بھولنے والا نہیں ہے!‘‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے شکوہ کیا ہو گا کہ آپ دیر دیر سے اور وقفہ دے کر آتے ہیں‘ جبکہ ہمیں وحی کا شدت سے انتظار رہتا ہے. اس شکوہ کا جواب ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے دلوایا کہ ہم اللہ کے حکم سے وحی لے کر آتے ہیں. اُس کا علم کامل ہے ‘ کائنات کی کوئی چیز اُس سے پوشیدہ نہیں ہے. یہ تاخیر و تعویق اس کے کسی نسیان کے باعث نہیں ہے ‘بلکہ اس کی حکمت ِ بالغہ کے مطابق ہے.

پھر اسی سورۂ مریم میں نبی اکرم کو خطاب کر کے فرمایا : 
فَلَا تَعۡجَلۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمۡ عَدًّا ﴿ۚ۸۴﴾ ’’پس (اے نبیؐ !) آپ ان (کافروں) پر (عذاب کے نزول کے لیے) جلدی نہ کیجیے . بالتحقیق ہم ان کے لیے (دن) گن رہے ہیں‘‘. یعنی یہ کفار و مشرکین ہماری گرفت میں ہیں‘ کہیں بھاگ کر نہیں جا سکیں گے. ان میں سے ہر ایک کو کیفر ِکردار تک پہنچا دیا جائے گا. لیکن اس کے لیے بھی ایک مہلت ہمارے علم کامل اور حکمت ِ بالغہ میں معین ہے اور جیسے سورۃ الطارق میں ارشاد فرمایا گیا: فَمَہِّلِ الۡکٰفِرِیۡنَ اَمۡہِلۡہُمۡ رُوَیۡدًا ﴿٪۱۷﴾ ’’پس (اے نبیؐ !)ان کافروں کو ڈھیل دیجیے! ان کو ذرا سی دیر اِن کے حال پر چھوڑ دیجیے‘‘. ان کے لیے جو ڈھیل اور مہلت ہم نے مقرر کر رکھی ہے ذرا اسے ختم ہولینے دیجیے! ہمارے علم کامل میں ہر چیز کا وقت معین ہے. اجل مسمّٰی کو کوئی ٹال نہیں سکے گا. اور جب وہ وقتِ معین آ جائے گا تو اِن کا حساب پاک کر دیا جائے گا.

الغرض یہاں پہلی بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ اے نبیؐ ! آپ قرآن کو یاد کرنے کے لیے جلدی نہ کیا کیجیے اور اس کے لیے اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیا کیجیے اور اس مضمون کو عجلت کی لفظی مناسبت کی بنا پر سورۃ القیامۃ میں نگینے کے مانند جڑ دیا گیا کہ عجلت پسندی تو وہ شے ہے جو نیکی اور خیر کے کاموں کے ساتھ بھی مناسبت نہیں رکھتی‘ کجا یہ کہ انسان پر 
’’حب عاجلہ‘‘ کا ایسا غلبہ ہو جائے کہ اس کی ساری جدوجہد ‘ سعی و محنت اور تگ و دَو کا مقصود و مطلوب ہی صرف ’’عاجلہ‘‘ یعنی دنیا کی دولت و ثروت اور جاہ و حشمت کا حصول بن کررہ جائے. تو اس کے جو خراب نتائج نکلیں گے ان کا تم خود بخوبی اندازہ کر سکتے ہو . اس پورے مفہوم کو دریا کو کوزے میں بند کرنے کے انداز میں نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ ان دو آیات میں سمو دیا گیا. یعنی تمہاری تمام تر گمراہی اور ضلالت‘ کفر و تکذیب‘ اور اعراض و انکار کا اصل سبب یہ ہے کہ تم عاجلہ (اس دُنیا) کی محبت میں گرفتا ر ہو اور آخرت کو نظر انداز کر دیتے ہو.

یہاں ضمناً ایک وضاحت ضروری ہے‘ اور وہ یہ کہ قرآن مجید میں 
’’سَارِعُوْا‘‘ اور ’’سَابِقُوْا‘‘ کے الفاظ بھی متعدد مقامات پر وارد ہوئے ہیں ‘ جیسے سورۂ آل عمران میں فرمایا: وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ(آیت ۱۳۳’’اور دوڑ لگاؤ اپنے ربّ کی مغفرت کی طرف!‘‘ اسی طرح سورۃ الحدید کی آیت ۲۱ میں فرمایا گیا: سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ’’ایک دوسرے سے آگے نکلو اپنے ربّ کی مغفرت کی طرف!‘‘’’سَارِعُوْا‘‘ اور ’’سَابِقُوْا‘‘ فعل ِامر کے صیغے ہیں. سورۃ المؤمنون کی آیت ۶۱ میں مؤمنین ِصادقین کے اوصاف کے ضمن میں یہ دونوں الفاظ خبریہ انداز میں فعل ِمضارع اور اسم ِفاعل کی صورت میں وارد ہوئے ہیں: اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوۡنَ فِی الۡخَیۡرٰتِ وَ ہُمۡ لَہَا سٰبِقُوۡنَ ﴿۶۱﴾ ’’یہی لوگ ہیں جو بھلائیوں کے لیے تیزگام ہیں اور اس راہ میں سب سے آگے نکل جانے والے ہیں‘‘. سَرِعَ ‘ یَسْرَعُ سے بابِ مفاعلہ کا مصدر ہے ’’مُسَارَعَۃٌ‘‘ اور سَبَقَ‘ یَسْبِقُ سے بابِ مفاعلہ ہی کا مصدرہے ’’مُسَابَقَۃٌ‘‘ اور یہ دونوں قریب المفہوم اور تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں. ان دونوں کا مفہوم ہے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں دوڑ لگانا. البتہ مسارعت و مسابقت اپنے اساسی مفہوم کے اعتبار سے عجلت پسندی سے قدرے مختلف شے ہے. واضح رہے کہ مسارعت اور مسابقت کا جذبہ بھی طبع ِانسانی میں ودیعت شدہ موجود ہے. چنانچہ ہر انسان دوسرے لوگوں سے آگے نکلنا اور بڑھنا چاہتا ہے. قرآن مجیدمسارعت و مسابقت کے اس جذبہ کے رُخ کو خیر کی طرف موڑ دینا چاہتا ہے. وہ انسان کو تعلیم دیتا اور تلقین کرتا ہے کہ ’’دُنیا‘‘ یعنی دُنیوی دولت و ثروت اور جاہ و حشمت کے حصول میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی سعی و کوشش کرنے کے بجائے تم بھلائیوں میں ‘ نیکیوں میں‘ خیر میں‘ خدمت خلق میں‘ عبادات کی بجا آوری میں‘ دین کے احکام اور اس کے اوامر و نواہی کی تعمیل میں‘ دین کی دعوت وتبلیغ اور نشر واشاعت کی سعی و جہد میں اور اقامت دین اور غلبہ ٔدین کے لیے انفاقِ مال اور بذلِ نفس میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو. یہ اللہ کی مغفرت اور جنت کے شاہ درے ہیں.

البتہ ہر کام کے لیے مناسب تدریج بھی ضروری ہے اور اس کی جملہ شرائط کو پورا کرنے میں جو مناسب وقت لگنا چاہیے ا س کے ضمن میں صبر کا مظاہرہ بھی ضروری ہے . جیسے اگرنماز کو بہت جلدی جلدی پڑھا جا رہا ہو تو رسول اللہ کے ارشاد کے مطابق ایسی نماز ادا نہیں ہوتی. چنانچہ ایک مرتبہ ایک بدوی مسلمان نے مسجد نبویؐ میں آ کر جلدی جلدی نماز پڑھ لی تو آپ نے اس سے فرمایا: 
فَصَلِّ فَاِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ (۱’’دوبارہ نماز پڑھ‘ اس لیے کہ تیری نماز ادا نہیں ہوئی‘‘. لہذا نماز کے ہر رکن کا حق پورے سکون اور ٹھہراؤ کے ساتھ ادا کرنا ضروری اور لازمی ہے. اسی طرح اگرچہ قرآن حکیم میں نمازِ جمعہ کے بارے میں فرمایا گیا : اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ (آیت ۹جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ ’’ـ جب نمازِ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاذان‘ باب وجوب القراء ۃ للامام والماموم فی الصلوات کلھا… وصحیح مسلم‘ کتاب الصلاۃ‘ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ وانہ اذا لم یحسن. جمعہ کے لیے بلایا جائے (اذان ہو جائے) تو اللہ کی یاد کے لیے دوڑو‘‘.لیکن تمام مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہاں سعی (فَاسْعَوْا) سے دوڑنا مراد نہیں ہے. اس لیے کہ نماز کے لیے دوڑ کر آنے سے رسول اکرم نے منع فرمایاہے‘ یہ وقار اور سکینت کے منافی ہے. لہذا یہاں سعی سے مراد لپکنا ہو گا. یعنی اپنے تمام کاموں سے ذہنی و عملی تعلق توڑ کر جمعہ کی نماز کے لیے لپکو اور ہمہ تن اسی کی طرف متوجہ ہو جاؤ.