آیت ۱۶ میں نبی اکرمﷺ کو مخاطب کر کے جو بات فرمائی گئی ‘ یعنی آنحضورﷺ کو اپنی زبانِ مبارک کو قرآن حکیم کے ساتھ تیزی سے حرکت دینے سے کمالِ شفقت و محبت کے ساتھ روکا گیا‘ تو آپؐ کے اس طرزِ عمل کا ایک سبب تو وہ تھا جو جلی انداز میں بیان کر دیا گیا‘ یعنی آپؐ کی قرآن حکیم کے ساتھ غایت درجہ کی محبت اور اس کا حد درجہ شوق‘ جس کے نتیجے میں آپؐ نازل شدہ آیاتِ قرآنی کو جلد از جلد یاد کر لینا چاہتے تھے تاکہ مزید وحی نازل ہو لیکن آیت ۱۷سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے وحی ٔ قرآنی کو یاد کرنے کے لیے تیزی سے زبانِ مبارک کو حرکت دینے اور اس طرح شدید مشقت برداشت کرنے کا ایک دوسرا سبب بھی تھا‘ اور وہ یہ کہ آپؐ چاہتے تھے کہ آپؐ وحی کے الفاظ کو اچھی طرح یاد کر لیں‘ مبادااس کا کوئی حصہ آپؐ کی یادداشت میں محفوظ نہ رہے اور اس طرح قرآن مجید کا کوئی لفظ یا کوئی آیت ضائع ہوجائے. چنانچہ آپؐ کی اس تشویش کو رفع کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا: اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚۖ۱۷﴾ ’’یقینا ہمارے ذمے ہے اس (قرآن) کو جمع کر دینا بھی اور اس کا پڑھنا (یا پڑھوانا) بھی!‘‘