’’قَرَاْنٰہُ‘‘ میں جو ضمیرِ فاعلی جمع متکلم کے صیغہ میں موجود ہے اس کے بارے میں اگرچہ دو احتمالات موجود ہیں‘ یعنی ایک یہ کہ اس کا مرجع اللہ تعالیٰ کی ذات ہو اور دوسرے یہ کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہوں‘ لیکن ازروئے آیاتِ قرآنی: مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ ۚ (النساء:۸۰) ’’جو رسول کی اطاعت کرتا ہے اس نے اصلاً اللہ ہی کی اطاعت کی‘‘ اور اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ(الفتح:۱۰) ’’یقینا جو لوگ (اے نبیؐ !) آپ سے بیعت کر رہے ہیں وہ درحقیقت اللہ سے بیعت کر رہے ہیں‘‘.ان دونوں احتمالات سے معنی اور مراد میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. گویا فی الحقیقت تو اس پڑھوانے کا فاعل حقیقی اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود تھا‘ لیکن مجازاً یا بالفعل یہ پڑھوانا حضرت جبرائیل ؑکا فعل تھا.چنانچہ احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہے کہ آنحضورﷺ ہر رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کا دَور فرمایا کرتے تھے اور اپنی حیاتِ دُنیوی کے آخری رمضان المبارک میں آپؐ نے پورے قرآن کا دو مرتبہ دَور مکمل کیا. اور ظاہر ہے کہ نہ آپؐ کا یہ دَورۂ قرآن کسی ترتیب کے بغیر ممکن تھا‘ نہ ہی آپؐ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے جو حضرات پورے قرآن کے حافظ تھے وہ بغیر کسی ترتیب کے حفظ کر سکتے تھے.
غرضیکہ عقلاً اور نقلاً ہر اعتبار سے یہ بات مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ایک خاص ترتیب سے نبی اکرمﷺ کے سینہ ٔ مبارک میں جمع کیا اور اسی ترتیب کے ساتھ آنحضورﷺ نے اُمت کو قرآن سکھایا اور یاد کرایا ‘اور امانت ِ خداوندی کو کامل دیانت کے ساتھ اُمت کے حوالے کر دیا‘ جیسے کہ آپؐ نے خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا:
قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ : کِتَابُ اللہِ (۱)
’’میں چھوڑ کر جا رہا ہوں تمہارے مابین وہ چیز جسے اگر تم مضبوطی سے تھامے رہے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے‘ یعنی اللہ کی کتاب.‘‘