سنت ِرسولؐ سے راہنمائی

بانی تنظیم اسلامی نے یہ فکر انگیز خطاب اگست 1995 ء میں
شکاگو (امریکہ) میں بزبان انگریزی فرمایا


خطبۂ مسنونہ‘ متعلقہ آیات قرآنیہ و احادیث ِنبویہ اور ادعیہ ماثورہ کے بعد:
محترم خواتین و حضرات! آپ کے علم میں ہے کہ آج مجھے ’’اسلام میں اجتماعیت کی اہمیت اور اس کی اساس‘‘ کے موضوع پر خطاب کرنا ہے. آپ جانتے ہیں کہ میں بنیادی طور پر قرآن حکیم کا طالب علم ہوں‘ اور چونکہ میں اپنے فہم کے مطابق اللہ کی کتاب کے علم اور اس کی حکمت کو عام کرنے کی کوشش کرتا رہاہوں‘ لہٰذا آپ مجھے قرآن کا معلم بھی کہہ سکتے ہیں. تاہم آج کا خطاب اصلاً چند احادیثِ نبوی کے حوالے سے ہو گا‘ اور صرف ثانوی درجے میں قرآنی آیات کا حوالہ آئے گا. یہ بات ان شاء اللہ ایک سادہ سی مثال سے واضح ہو جائے گی کہ میں احادیث کو کیوں بنیاد بنا رہا ہوں. 

سنت ِرسولؐ سے راہنمائی

ہر مسلمان جانتا ہے کہ قرآن حکیم میں نماز کو قائم کرنے پر کس قدر زور دیا گیا ہے. اس عبادت کی اہمیت کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ نماز کے تمام عناصرِ ترکیبی کا ذکر متفرق طور پر قرآن حکیم میں آیا ہے… جیسے قیام‘ رکوع‘ وضو اور تیمم… لیکن نماز کی کوئی واضح شکل اور اس کا مکمل طریقہ قرآن میں کہیں نہیں ملتا. اقامت ِصلوٰۃ کی اہمیت تسلیم‘ لیکن اس کی عملی صورت کیا ہو؟ اس عملی صورت کو معلوم کرنے کے لیے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم سنت ِرسول اللہ کی طرف رجوع کریں.

اسی طرح کا معاملہ میرے آج کے موضوع کا ہے. اسلام میں اجتماعیت کی اساس 
اور اس کے عملی طریقہ کار کو معلوم کرنے کے لیے سنت ِنبویؐ ہی سے اصل راہنمائی حاصل ہوتی ہے. ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں تک اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوئوں اور مختلف عناصرِترکیبی کا تعلق ہے تو قرآن حکیم میں اس سے متعلق متعدد اشارے مل سکتے ہیں. لیکن اگر ہم چاہیں کہ ہمارے سامنے اس موضوع کا ایک مکمل اور مربوط خاکہ آ جائے اور اس کے عملی خدوخال واضح ہو جائیں تو یہ سنت ِنبویؐ ‘کی طرف رجوع کیے بغیر ممکن نہیں ہے.

اس ضمن میں سب سے پہلے میں جس روایت کی طرف آپ کی توجہات کو مرکوز کرنا چاہتا ہوں وہ مشکوٰۃ المصابیح (کتاب الامارۃ) میں مسند احمد بن حنبلؒ اور جامع ترمذیؒ کے حوالے سے موجود ہے. اس روایت کے الفاظ انتہائی اہم ہیں. حضرت حارث الاشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

اَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ‘ اللّٰہُ اَمَرَنِی بِھِنَّ : بِالْجَمَاعَۃِ‘ وَالسَّمْعِ‘ وَالطَّاعَۃِ‘ وَالْھِجْرَۃِ‘ وَالْجِھَادِ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ (۱
’’میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں. اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے. یعنی جماعت‘ سننا‘ اطاعت کرنا‘ ہجرت‘ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘.

میرا گمان ہے کہ آپ میں سے اکثر نے یہ حدیث پہلی مرتبہ سنی ہو گی. اس روایت کا تقابل اگر آپ اس انتہائی مشہور روایت سے کریں جس میں اسلام کے پانچ ارکان کا ذکر ہے تو بظاہر ایک عجیب تضاد ہمارے سامنے آتا ہے. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہنے ارشاد فرمایا: 

بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَھَادَۃِ اَنْ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ واَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘ وَاِقَامِ الصَّلَاۃِ‘ وَاِیْتَائِ الزَّکَاۃِ‘ وَالْحَجِّ‘ وَصَوْمِ رَمَضَانَ (۲
’’اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں‘ نماز قائم کرنا‘ زکوٰۃ ادا کرنا‘ (بیت اللہ

(۱) سنن الترمذی‘ ابواب الامثال عن رسول اللّٰہ ‘ باب ما جاء فی مثل الصلاۃ والصیام والصدقۃ. ومسند احمد‘ مسند الشامین:۱۶۷۱۸ واللفظ لہ.
(۲) صحیح البخاری‘ باب بنی الاسلام علی خمس.وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ارکان الاسلام ودعائمہ العظام. 
کا) حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا‘‘. 

آپ جانتے ہیں کہ اسلام کے پانچ ارکان کا تصور اسی حدیث سے اخذ کیا گیا ہے‘ اور یہ کہ یہ حدیث انتہائی عام ہے‘ بار بار دہرائی جاتی ہے‘ اور مختلف طریقوں سے اس کا حوالہ آتا ہے. حالانکہ اگر آپ اس روایت کے الفاظ پر غور کریں تو آپ صاف طور پر محسوس کریں گے کہ اس حدیث میں کوئی حکم نہیں دیا جا رہا. رسول اللہ فرماتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے. یہ ایک حقیقت کا اظہار توہے لیکن کلام انشائیہ نہیں ہے‘ کوئی واضح حکم نہیں دیا جا رہا ہے. دوسری طرف وہ روایت دیکھئے جس کا میں نے حوالہ دیا ہے‘ اس میں صریح الفاظ اور انتہائی تاکیدی اسلوب میں حضور نے ہمیں پانچ باتوں کا حکم دیا ہے‘ یعنی جماعت‘ سمع و طاعت‘ ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کا. اس کے باوجود یہ حدیث وہ ہے جس سے لوگ بالعموم واقف نہیں. مسلمانوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اس روایت کے وجود ہی سے بے خبر ہیں. ظاہر ہے کہ اس بے خبری کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے.

اس موقع پر میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے ایک واقعہ بیان کروں. یہ تقریباً بیس برس پہلے کا واقعہ ہے. میرا اس حدیث کے ساتھ تعارف مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی مرحوم کے ذریعے ہوا. مولانا آزاد نے ۱۹۱۲ء میں اپنے جریدے ’’الہلال‘‘ میں اور مولانا مودودی نے ۱۹۴۶ء میں مراد پور (سیالکوٹ) کی ایک تقریر میں (جو ’’شہادتِ حق‘‘ کے نام سے مطبوعہ موجود ہے) اس حدیث کا حوالہ دیا تھا. لیکن دونوں نے اس روایت کی سند اور حوالہ ذکر نہیں کیا کہ یہ حدیث کس کتاب سے لی گئی ہے. مجھے اس روایت میں خاصی دلچسپی تھی اور اسی تجسس کی وجہ سے میں نے ایک بڑے عالم دین سے رابطہ قائم کیا جو لاہور کے ایک دینی ادارے میں شیخ الحدیث تھے. چنانچہ میں نے ان سے اس حدیث کے ماخذ اور اسناد سے متعلق سوال کیا. جو اب میں انہوں نے کہا کہ اس روایت کے الفاظ نامانوس سے محسوس ہو رہے ہیں‘ مجھے یاد نہیں کہ یہ الفاظ میری نظر سے گزرے ہوں. عجیب بات یہ ہے کہ یہ حدیث‘ جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ مشکوٰۃ میں موجود ہے‘ جو علمِ حدیث کی پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے. اس کے باوجود ایک 
عالم نے‘ جو علمِ حدیث کے استاد اور اپنے فن میں ماہر سمجھے جاتے ہیں‘ اس روایت کو نامانوس قرار دیا. آخر کوئی وجہ تو ہے کہ ایک نہایت اہم روایت عام مسلمانوں ہی کے نہیں ‘ علماء کے شعور سے بھی محو ہو گئی! اس وجہ کو سمجھنے کے لیے کسی قدر تفصیل کی ضرورت ہے.