اسلام عام معنوں میں مذہب نہیں بلکہ دین ہے. مذہب کا لفظ عموماً نہایت محدود مفہوم میں مستعمل ہے‘ یعنی چند عقائد (dogma) ‘ پرستش یا عبودیت کے طریقے (rituals) اور چند سماجی رسومات (social customs). اس سے زیادہ یا اس سے آگے بڑھ کر مذہب کی کوئی حیثیت تسلیم نہیں کی جاتی. چنانچہ جہاں تک سماجی‘ معاشی اور سیاسی نظام کا تعلق ہے تو آج کے دَور میں یہ مان لیا گیا ہے کہ ان تمام اُمور کا کوئی تعلق کسی مذہب یا کسی آسمانی ہدایت سے نہیں ہونا چاہیے. اس کے برعکس ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہمارا دین… دین اسلام… ایک مکمل نظامِ حیات فراہم کرتا ہے اور یہ کہ اس میں ذاتی اور اجتماعی زندگی دونوں کے لیے مکمل ہدایات موجود ہیں. بدقسمتی سے مسلمان اُمت کے زوال کی وجہ سے یہ بنیادی حقیقت بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی. چنانچہ خلافتِ راشدہ کے بعد سے زوال کا جو عمل شروع ہوا‘ وہ رفتہ رفتہ یہاں تک پہنچا کہ دین کا یہ مفہوم کہ وہ ہمیں ایک کامل سماجی‘ معاشی اور سیاسی نظام بھی فراہم کرتا ہے‘ ہمارے اجتماعی شعور سے محو ہو گیا‘ اور ہم اسلام کو بھی معروف معنوں میں صرف ایک مذہب سمجھنے لگے.
اس سلسلے میں مغربی استعمار کی غلامی کا بھی اہم کردار ہے. یہ وہ دور تھا جب عیسائیت جیسے ’’مذہب‘‘ سے ہمارا سابقہ پیش آیا. جیسا کہ آپ جانتے ہیں‘ مسیحیت میں کوئی قانون یا شریعت نہیں ہے. پورا مذہب محض چند عقائد‘ چند اخلاقی تعلیمات اور تھوڑے بہت تصوف پر مشتمل ہے. نظامِ اجتماعی کی بات تو بہت دور کی ہے‘ مسیحیت میں تو کوئی قانون تک موجود نہیں ہے. مغرب کی غلامی کے دور میں ہم نے بھی یہی لفظ یعنی ’’مذہب‘‘ اختیار کر لیا‘ اور باوجود یکہ اس کا اصل انطباق تو مسیحیت پر ہوتا ہے‘ ہم نے اسلام کو بھی ایک ’’مذہب‘‘ کہنا اور سمجھنا شروع کر دیا ہے. یہ وہ دور تھا جب مسلمان ملکوں پر مغربی قانون اور استعماری نظام کا غلبہ تھا‘ نظامِ اجتماعی کے کسی بھی گوشے کا تعلق اسلام سے باقی نہ رہا تھا‘ بلکہ ہر کام ہمارے غیر ملکی آقائوں کی مرضی کے مطابق ایک لادینی نظام کے تحت ہوتا تھا. نظامِ اسلام جب ایک ٹھوس اور واقعی حقیقت کی صورت میں موجود نہ رہا تو آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے مصداق دین کا یہ تصور کہ وہ ایک مکمل نظام بھی ہے ‘ہماری نظروں سے غائب ہو گیا. نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام کا اپنا ایک مکمل اور قابل عمل سیاسی‘ سماجی اور معاشرتی نظام بھی ہے تو بہت سے مسلمان بھی چونک جاتے ہیں.
صدیوں کے مسلسل زوال کا یہ نتیجہ نکلا کہ اسلام کا بحیثیت ِدین تصور ہی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا. چنانچہ مغربی استعمار کی غلامی کے دور میں بھی ہم مسلمانوں کو عقائد‘ نماز‘ روزے‘ زکوٰۃ‘ حج وغیرہ کی پوری آزادی تھی. ہمیں اجازت تھی کہ بچے کی پیدائش پر عقیقہ کریں‘ شادی کے موقع پر نکاح کا طریقہ اختیار کریں‘ فوتیدگی کی صورت میں تجہیز و تکفین کریں. نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تمام چیزیں… عقائد‘ عبادات‘ رسومات… تو ہماری نظروں میں رہیں‘ لیکن چونکہ اس دورِ غلامی میں ہمارا سماجی‘ معاشی اور سیاسی نظام برقرار نہ رہا‘ لہٰذا اسلام کے یہ پہلو ہمارے اجتماعی شعور سے غائب ہو گئے.