اب میں چاہوں گا کہ زیر بحث حدیث کے الفاظ پر غور کر لیا جائے. رسول اللہﷺ نے جن پانچ باتوں کا حکم فرمایا ہے ہم ان کو عکسی ترتیب سے سمجھنے کی کوشش کریں گے‘ جس کی وجہ آگے چل کر واضح ہو جائے گی. آخری دو باتیں ہیں ہجرت اور جہاد. یہ دونوں دراصل ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں. آپ جانتے ہیں کہ اکثر ہم کسی بات کے منفی پہلو کو پہلے بیان کرتے ہیں اور مثبت کو بعد میں.
مثلاً لا الٰہ الا اللہ میں بھی نفی پہلے ہے‘ اثبات بعد میں. پہلے تمام خدائوں کی نفی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی الوہیت کا اقرار ہے. اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ ہجرت ایک ہی حقیقت کا منفی پہلو ہے‘ اور اسی فریضہ کے مثبت پہلو کا نام جہاد ہے. ہجرت کا مطلب ہے کسی شے کو ترک کر دینا ‘اور جہاد کا مفہوم ہے کسی شے کے لیے کوشش کرنا. چنانچہ یہ دونوں فرائض حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں.
ہجرت اور جہاد دونوں کے کئی مراحل اور درجات ہیں‘ لیکن میں آپ کے سامنے ان دونوں فرائض کے ابتدائی اور پھر آخری مراحل بیان کروں گا. مجھے امید ہے کہ ابتدائی اور آخری مراحل سمجھ لینے کے بعد آپ درمیانی مراحل کا اندازہ خود ہی لگا لیں گے.
حضرت عبداللہ بن عمروiروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ سے ایک بار یہ سوال پوچھا گیا کہ کون سی ہجرت سب سے افضل ہے؟ حضورؐ نے فرمایا کہ : اَنْ تَھْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ عَزَّوَجَلَّ (۱) یعنی سب سے افضل ہجرت یہ ہے کہ تم ہر اُس شے کو چھوڑ دو جو تمہارے پروردگار کی نظر میں نا پسندیدہ ہے. اب آپ ذرا اس حدیث مبارک کے نتائج پر غور کریں. اگر کوئی شخص آج یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ وہ ہر اُس شے کو ترک کر دے گا جو اللہ کو پسند نہیں تو گویا آج ہی سے اس کی ’’ہجرت‘‘ کا آغاز ہو جائے گا. اگر اس کے کاروبار میں سود کا کوئی حصہ ہے تو اسے چھوڑنا پڑے گا ‘اور اگر اس کی معاشرت میں کہیں احکامِ شریعت سے تجاوز ہو رہا ہے تو اس طرزِ معاشرت کو ترک کرنا پڑے گا‘ خواہ اُس شخص کو اپنے دوستوں اور عزیزوں کے استہزاء بلکہ مخالفت ہی کا نشانہ کیوں نہ بنناپڑے. چنانچہ ہجرت کا پہلا مرحلہ تو یہ ہے کہ انسان ہر اُس شے کو ترک کر دے جو اللہ‘تعالیٰ کو پسند نہیں.
اب اس نکتے کو سمجھئے کہ ہجرت کا آخری مرحلہ یا ہجرت کے عمل کا نقطہ ٔ‘عروج کیا ہے؟ اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد ہم سب پر فرض ہے. اگر اس جدوجہد کے دوران ایسا موقع آ جاتا ہے کہ وطن اور گھر بار چھوڑ کرکسی خاص مقام پر جمع ہونے کی ضرورت پیش آ جائے تاکہ باطل کے خلاف آخری حملے کے لیے قوت فراہم کی جا سکے تو یہ ہجرت کی انتہائی شکل ہو گی. اگر ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہر اُس شخص کے لیے جو اقامت ِدین کی جدوجہد میں مصروف ہو‘ یہ لازم ہو گا کہ وہ اپنے گھر‘ اپنی جائیداد‘ اپنے دوستوں (۱) سنن النسائی‘ کتاب البیعۃ‘ باب ھجرۃ البادی. اور رشتہ داروں بلکہ اپنے محبوب وطن تک کو چھوڑ کر اللہ کے دین کے لیے نکل آئے. اور ظاہر ہے کہ یہ نقل مکانی اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لیے یا کسی بہتر اور آسودہ ماحول کی تلاش کے لیے نہیں ‘بلکہ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے ہو گی.
اس ہجرت کا تصور کیجئے جو نبی اکرمﷺ اور آپؐ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف فرمائی تھی. انہوں نے اپنے گھروں اور اپنے مال و متاع کو چھوڑا‘ اپنے آباء و اَجداد کا شہر چھوڑا‘ انہوں نے وہ سرزمین چھوڑی جہاں ان کے باپ دادا کی ہڈیاں دفن تھیں. یہاں تک کہ انہوں نے دنیا کا سب سے قیمتی اور مقدس مقام‘ خانہ کعبہ‘ تک چھوڑ دیا. تصور کیجیے کہ یہ ہجرت کس غرض کے لیے تھی؟ کیا یہ لوگ اپنا معیارِ زندگی بلند کرنا چاہتے تھے؟ کیا انہیں بہتر کاروباری مواقع کی تلاش تھی؟ کیا وہ دولت و جائیداد کے اعتبار سے پھلنا اور پھولنا چاہتے تھے؟ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی شے بھی ان کو مطلوب نہ تھی. ان کی یہ ہجرت صرف اللہ تعالیٰ کے لیے تھی‘ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے تھی. اس کے علاوہ کوئی اور مقصد ان کے سامنے نہ تھا.