آگے بڑھنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ کے سامنے ہمارے دین کے مزاج کی ایک جھلک آ جائے. میں نے شروع میں اس اہمیت کی طرف اشارہ کیا تھا جو ہمارا دین نماز کو دیتا ہے. مردوں کے لیے فرض نمازیں باجماعت ادا کرنا لازم کیا گیا ہے‘ سوائے اس کے کہ کوئی حقیقی عذر لاحق ہو. جماعت کی شکل میں نماز ادا کرنا دراصل اس امر کی ایک علامت ہے کہ اسلام تمام معاملات میں ایک طرح کا عمومی نظم چاہتا ہے.

باجماعت نماز میں کیا ہوتا ہے؟ ایک امیر یا امام ہے جس کی تمام نمازیوں کو پیروی کرنا ہوتی ہے. کسی نمازی کو اجازت نہیں کہ وہ نماز کا کوئی رکن امام سے پہلے ادا کر لے. اگر کوئی شخص امام سے پہلے اپنا سر سجدے سے اٹھا لے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی. انتہا یہ ہے کہ اگر امام نماز پڑھانے میں کوئی غلطی کر بیٹھتا ہے تو آپ کو اس کی اجازت تو ضرور ہے کہ سبحان اللہ کہہ کر اسے متوجہ کریں‘ لیکن اگر وہ اپنی غلطی پر قائم رہتا ہے تو آپ کو جماعت چھوڑ دینے کی ہرگز اجازت نہیں. یہاں تک کہ اگر آپ کو سو فیصد 

(۱) سنن الدارمی‘ المقدمۃ‘ باب فی ذھاب العلم. یقین ہو کہ امام سے غلطی کا صدور ہو رہا ہے تب بھی آپ جماعت چھوڑ کر الگ نہیں ہوسکتے‘ بلکہ ضروری ہے کہ آپ لازماً جماعت کے ساتھ رہیں اور امام کی غلطی میں بھی اس کی پیروی کریں. جماعت کی اہمیت یہ ہے کہ آپ کو اس کے ساتھ اپنے آپ کو پیوستہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے خواہ آپ اپنے امام سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں.

دوسری مثال اسلام کے سماجی نظام سے لیجیے‘ جس کی بنیاد ’’نکاح‘‘ کے ادارے کے ذریعے استوار ہوتی ہے. نکاح کیا ہے؟ ایک عورت اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ وہ شریعت کے دائرے کے اندر اندر اپنے شوہر کی اطاعت کرے گی اور اپنے آپ کو نکاح کے لیے پیش کرتی ہے. ایک مرد اس پیشکش کو قبول کرتا ہے اور اس طرح نکاح منعقد ہوجاتا ہے. غور کیجیے کہ فی الواقع اگر آپ کو ایک مضبوط اور صحت مند خاندانی نظام تشکیل دینا ہے تو یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اطاعت فی المعروف اور نظم کو بھرپور طریقے سے قائم کیا جائے. اسی لیے اسلام نے بیوی پر لازم کیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے. اگرچہ ظاہر ہے کہ بیوی اپنے شوہر سے اختلاف کر سکتی ہے‘ اس کی رائے بدلنے کی کوشش کر سکتی ہے‘ وہ اپنے شوہر کو مشورہ یا تجویز دے سکتی ہے‘ وہ دلائل کے ذریعے بات کر سکتی ہے یا استدعا اور درخواست کر سکتی ہے‘ لیکن اگر وہ اپنے شوہر کی اطاعت پر کاربند نہیں تو یہ رویہ اسلامی تعلیمات کے منافی سمجھا جائے گا.

ایک تیسری مثال لیجیے. نبی مکرم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اگر دو افراد بھی اکٹھے سفر کر رہے ہوں تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے میں سے زیادہ تجربہ کار اور باعلم شخص کو امیر مقرر کر لیں‘ جو دوسرے مسافر کی رہنمائی کرے. اسی طرح اگر دو افراد ساتھ ہوں اور نماز ادا کرنے کا موقع آ جائے تو ان میں سے ایک کوامام بن جانا چاہیے اور دوسرے کو مقتدی. ان مثالوں سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام میں اجتماعیت کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے. نیز ان سے اسلام میں اجتماعی زندگی کے نظام پر روشنی پڑتی ہے‘ جو ہمارا اگلا موضوع ہے.