آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ اسلامی اجتماعیت سے متعلق بعض بنیادی اصطلاحات کو سمجھ لیا جائے. ۱. امیر:
اس ضمن میں پہلی اصطلاح ہے امیر. امیر سے کیا مراد ہے؟ آپ کے علم میں ہے کہ لفظ امیر سے ملتا جلتا ایک اور لفظ اردو میں مستعمل ہے‘ یعنی آمر. آمر کا لفظ انگریزی لفظ Dictator کے مترادف کے طور پر بولا جاتا ہے اور یہ لفظ کبھی بھی اچھے معنوں میں نہیں آتا. اگر آپ کسی قائد یا رہنما کو ’’ آمر‘‘ کہہ دیں یا اس کے رویے کو ’’
آمرانہ‘‘ قرار دیں تو گویا یہ ایک شدید تنقید سمجھی جائے گی. اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آج ایک ایسے دَور میں سانس لے رہے ہیں جو جمہوریت اور عوام کی حاکمیت کا دور ہے‘ اور اس ماحول میں کوئی بھی ایسی شے پسندیدہ نہیں سمجھی جاتی جو سلطانی ٔ جمہور کے اونچے تصورات سے مطابقت نہ رکھتی ہو. لیکن نوٹ کیجیے کہ امیر کا لفظ آمر کے مقابلے میں کہیں زیادہ گاڑھا ہے.
عربی زبان کی باریکیوں سے واقفیت رکھنے والے اس نکتے کو اچھی طرح سمجھ لیں گے کہ جب کوئی شخص ایک کام کر رہا ہوں تو اسے ’’فاعل‘‘ کہتے ہیں‘ مثلاً قادر‘ عالم‘ آمر وغیرہ‘ لیکن جب اس کام کو کرنے کی صلاحیت اور صفت اس شخص میں مستقل طور پر پائی جائے اور اس کی شخصیت کا مستقل جزوبن جائے تو پھر اسے ’’فعیل‘‘ کہتے ہیں‘ مثلاً قدیر‘ علیم‘ اور امیر. چنانچہ دوبارہ نوٹ کیجیے کہ جس حدیث کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں اس میں قائد یا رہنما کے لیے لفظ ’’امیر‘‘ استعمال ہوا ہے جو آمر سے کہیں زیادہ گاڑھا ہے.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں: ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اصل میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی‘ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی. جس نے (میرے مقرر کیے ہوئے) امیر کی اطاعت کی اس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے (میرے مقرر کیے ہوئے) امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی‘‘. (۱) (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب تعامل من وراء الامیر ویتقی بہ.وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ… ظاہر ہے کہ جب رسول اللہﷺ اس دنیا میں بنفسِ نفیس موجود تھے تو آپؐ خود ہی مسلمانوں کے امیر بھی تھے‘ فوج کے سپہ سالار بھی تھے‘ اور سربراہِ حکومت بھی تھے. لیکن اُس وقت بھی آپؐ کے مقرر کردہ امراء کا ایک پورا سلسلہ موجود تھا اور یہ امراء مختلف سطحوں پر نگران اور قائد تھے. مثال کے طور پر اگر کسی غزوے کا موقع ہو تو ظاہر ہے کہ فوج کے سپہ سالار تو حضورﷺ خود ہی تھے‘ لیکن پھر آپؐ کے تحت دوسرے امراء بھی مقرر ہوتے تھے‘ مثلاً میمنہ کا امیر‘ میسرہ کا امیر‘ وغیرہ. پھر ان بڑی شاخوں کے آگے چھوٹی شاخیں اور ان میں سے ہر ایک کے لیے الگ امیر کا تقرر ہوتا تھا. مطلب یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد امراء کی ایک پوری زنجیر تھی اور اس زنجیر کو برقرار رکھنا ضروری تھا. اگراس سلسلے میں کہیں کوئی خرابی ہوتی تو لازماً منفی نتائج برآمد ہوتے. چنانچہ یہی چیز غزوۂ اُحد میں پیش آئی.
غزوۂ احد میں رسول اللہﷺ نے پچاس تیر اندازوں کا ایک دستہ ایک پہاڑی درّے پر مقرر فرمایا اور حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو اس کا امیر بنایا. آپﷺ کا حکم تھا کہ تم یہاں سے ہرگز مت ہلنا‘ یہاں تک کہ اگر تم دیکھو کہ تمام مسلمان مارے گئے ہیں تب بھی تم اپنی جگہ مت چھوڑنا. جنگ کے دوران جب تیر اندازوں نے دیکھا کہ دشمن مغلوب ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنے امیر یعنی حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کے روکنے کے باوجود اپنی جگہ چھوڑ دی. میری رائے یہ ہے کہ تیراندازوں نے حضورﷺ کے حکم کی تاویل کی‘ اور یہ سمجھا کہ حضورﷺ کا حکم صرف اس صورت میں تھا اگر مسلمانوں کو شکست کا سامنا ہوتا‘ لیکن یہاں تو ہمیں فتح مل رہی ہے. چنانچہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان صحابہؓ نے حضورﷺ کی نہیں بلکہ اپنے مقامی امیر کی حکم عدولی کی. نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کے گھڑ سواروں نے موقع غنیمت جان کر مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا اور شدیدنقصان پہنچایا. پینتیس صحابہؓ‘کی غلطی کی وجہ سے ستر صحابہ شہید ہوئے. اس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمان افواج پر واضح کر دیا کہ نظم کی کیا اہمیت ہے اور امیر کا حکم نہ ماننے کی کس طرح سزاملتی ہے.
غور کیجیے کہ اسلام نظم اور تنظیم کو کس قدر اہمیت دیتا ہے. حضرت عبداللہ بن جبیرؓ ‘کا معاملہ تو یہ تھا کہ آپ کو براہ ِراست خود رسول اللہﷺ نے مقرر فرمایا تھا. بعد میں صورت حال یہ رہی کہ مسلمان خود اپنے خلیفہ یا امیر کو باہمی مشورے کے ذریعے منتخب کرتے تھے. لیکن ایک حدیث کے مطابق‘ جس کے راوی حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ ہیں حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ (اے مسلمانو!) تم پر سمع و طاعت لازم ہے خواہ کوئی غلام ہی تمہارا امیر بن بیٹھے(۱) (یعنی مسلمانوں کی مرضی کے بغیر) بشرطیکہ وہ تمہیں کوئی خلافِ شریعت حکم نہ دے. اس سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام میں اجتماعیت اور نظم کی کیا اہمیت ہے کہ اگر کوئی شخص زبردستی حکومت پر قبضہ کر لیتا ہے تب بھی شریعت کے دائرے کے اندر اس کی اطاعت کی جائے گی. مقصد یہ ہے کہ غیر ضروری فتنہ و فساد سے اُمت کو بچایا جائے. امیر کے حکم کی نافرمانی صرف اسی صورت میں جائز
(۱) حضرت عرباض بن ساریہؓ سے مروی یہ روایت حافظ ابن قیمؒ نے ’’اعلام الموقعین‘‘ (۴؍۱۱۹) میں اور حافظ منذریؒ نے ’’الترغیب والترہیب‘‘ (۱؍۶۰) میں درج کی ہے اور علامہ البانی ؒ نے ’’صحیح الترغیب والترہیب‘‘ میں اسے صحیح قرار دیا ہے. اسے امام نوویؒ نے اپنی ’’اربعین‘‘ میں ترمذی اور ابودائود کے حوالے سے درج کیا ہے (حدیث ۲۸).اس روایت کے الفاظ ہیں: اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَاِنْ تَأمَّرَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ… الخ‘‘ یعنی ’’میں تمہیں خدا ترسی کی نصیحت کرتا ہوں اور سننے اور ماننے کی‘ خواہ تم پر ایک غلام ہی امیر بن بیٹھے…‘‘ لیکن ترمذی اور ابودائود کے علاوہ سنن ابن ماجہ ‘ مسند احمد اور سنن دارمی میں بھی عرباض بن ساریہؓ ‘ کی روایت جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے ان میں ’’تأمَّر علیکم‘‘ کے الفاظ شامل نہیں ہیں. تاہم امام نوویؒ نے صحیح مسلم کی شرح میں اسی مضمون کی ایک اور حدیث مبارک وَلَوِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ یَقُوْدُکُمْ بِکِتَابِ اللّٰہِ فَاسْمَعُوْا لَــہٗ وَاَطِیْعُوْا کے ذیل میں لکھا ہے کہ ’’ایک غلام اگر غلبہ حاصل کر کے از خود امیر بن بیٹھے اور امورِ سلطنت کتاب و سنت کے مطابق انجام دے تو اس کی اطاعت لازم ہے. البتہ عام حالات میں جبکہ امیر کا انتخاب مسلمانوں کی آزادانہ رائے سے ہو رہا ہے‘ کسی غلام کو امیر منتخب کرنا درست نہیں ہو گا‘‘. (حاشیہ از ناشر) ہے اگر وہ واضح طور پر شریعت سے تجاوز کرے‘ اور مسلح بغاوت اسی صورت میں صحیح ہو گی اگر ایک پائیدار تبدیلی برپا کر دینے کے لیے کافی طاقت فراہم ہو چکی ہو.
خود سے امیر بن جانے کی ایک صورت اور بھی ممکن ہے‘ مثلاً میں بھی امیر ہوں‘ حالانکہ کسی نے مجھے منتخب نہیں کیا ہے. میں پاکستان میں ایک انقلابی جدوجہد کے ذریعے اسلام کا نظامِ عدل اجتماعی‘ یا دوسرے لفظوں میں نظامِ خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہوں. ظاہر ہے کہ یہ مجھ اکیلے کے بس کی بات نہیں. مجھے ساتھی اور اعوان و انصار درکار ہیں. میں عوام میں اپنے خیالات کو عام کرتا ہوں اور پھر یہ پکار لگاتا ہوں کہ مَنْ اَنْصَارِی اِلَی اللّٰہِ؟ کون لوگ اس کام میں میرے دست و بازو بننے کو تیار ہیں؟ کون لوگ اللہ کی حاکمیت کو بالفعل قائم کرنے کے کام میں میری مدد کریں گے؟ اب جو افراد بھی مجھ سے اتفاق کرتے ہیں اور میرے بتائے ہوئے طریق کار کو درست سمجھتے ہیں ‘وہ میرے ساتھ مل جاتے ہیں‘ میرے ساتھی اور اعوان و انصار بن جاتے ہیں. اس طرح کی جماعت اُوپر سے نیچے کی طرف بڑھتی ہے. چونکہ لوگ میری پکار پر جمع ہوئے ہیں لہٰذا میں خود بخود امیر بن جاتا ہوں‘ اور کسی قسم کے انتخاب کی ضرورت نہیں پڑتی.
اب آپ ان چار اقسام کے امراء کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں. اولاً وہ امیر جسے کوئی بڑا امیر کسی خاص علاقے یا کسی مخصوص گروہ کا قائد مقرر کرے. مثلاً وہ امراء جنہیں رسول اللہﷺ نے مقرر فرمایا تھا. ثانیاً وہ امیر جسے مسلمان باہمی مشورے اور رضا مندی سے اپنا حاکم منتخب کریں. مثلاً خلفائے راشدینؓ . ثالثاً وہ شخص جو مسلمانوں کی مرضی کے بغیر حکومت پر قبضہ کر کے ان کا حاکم بن جائے. مثلاً مسلمانوں کی تاریخ کے اکثر بادشاہ اور آج کے دور کے فوجی حکمران. رابعاً وہ شخص جو اسلام کے لیے کسی جدوجہد کا آغاز کرنا چاہے اور اس میں اسے دوسرے مسلمانوں کی مدد اور ان کے تعاون کی ضرورت ہو. یہ شخص ابتدا میں داعی کے طور پر کام کرتا ہے اور لوگوں کو جمع کرنے کے لیے پکار لگاتا ہے. جب لوگ جمع ہو کر اس کے ساتھی بن جاتے ہیں تو وہ ان کا فطری امیر بن جاتا ہے.
۲.سمع و طاعت
: امیر کے بعد دوسری اصطلاح جس کے مفہوم کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے ‘وہ ہے ’’سمع و طاعت‘‘. واضح رہے کہ جس طرح ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ بظاہر دو کام ہیں لیکن اصلاً ایک ہی اصطلاح بنتے ہیں‘ اسی طرح سمع و طاعت بھی قرآن حکیم کی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کے دونوں اجزاء باہم پیوست ہیں اور جدا نہیں کیے جا سکتے ہیں. آپ کے علم میں ہو گاکہ سمع و طاعت دراصل فوج کے نظم کو ظاہر کرنے کی خاص اصطلاح بھی ہے. ایک عام سپاہی کا فرض یہ ہے وہ سنے اور اطاعت کرے. یعنی یہ کہ وہ اپنے سے بالاتر افسر سے احکامات وصول کرے اور ان پر عمل پیرا ہو. اسے اس کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے کمانڈر سے بحث کرے اور اس کے حکم کی علت یا مقصد دریافت کرے. ظاہر ہے کہ ایک جنگ کے دوران وہی سپاہی کارآمد ثابت ہوں گے جو کیا اور کیوں کی بحث میں پڑنے کے بجائے اپنے افسر کے احکامات کو سنیں اور عمل کریں. فوج کا یہی وہ نظم ہے جسے ایک مشہور انگریزی نظم Charge of the Light Brigade میں بیان کیا گیا ہے. کسی لڑائی کے دوران صورت حال یہ ہوئی کہ فوج کے ایک دستے کو آگے بڑھنے کا حکم ملا‘ لیکن دشمن کی توپیں ہر طرف موجود تھیں. ہر سپاہی سمجھ رہا تھا کہ آگے بڑھنے کا حکم صریحاً کسی غلطی کا نتیجہ ہے‘ لیکن اس کے باوجود کسی نے بحث نہیں کی‘ کسی نے وضاحت طلب نہیں کی‘ اور کسی نے حکم کے صحیح یا غلط ہونے کا سوال نہیں اٹھایا. سب نے حکم کی تعمیل کی اور سب کے سب مارے گئے.
Theirs not to reason why,
Theirs but to do and die!
اس موقع پر میں قرآن مجید کے تین مقامات کا حوالہ دینا چاہتا ہوں‘ تاکہ سمع و طاعت کی جو اہمیت اسلام کے نظامِ زندگی میں ہے وہ پوری طرح واضح ہو جائے.
وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۲۸۵﴾ (البقرۃ)
’’… اور کہہ اُٹھے کہ ہم نے سنا اور قبول کیا‘ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اے ہمارے رب اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے.‘‘
وَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ وَ مِیۡثَاقَہُ الَّذِیۡ وَاثَقَکُمۡ بِہٖۤ ۙ اِذۡ قُلۡتُمۡ سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۷﴾ (المائدۃ)
’’اور یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر اور عہد اس کا جو تم سے ٹھہرایا تھا جب تم نے کہا تھاکہ ہم نے سنا اور مانا‘ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘ بیشک اللہ خوب جانتا ہے دلوں کی‘بات.‘‘
فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَ اسۡمَعُوۡا وَ اَطِیۡعُوۡا وَ اَنۡفِقُوۡا خَیۡرًا لِّاَنۡفُسِکُمۡ ؕ (التغابن:۱۶)
’’سو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جہاں تک ہو سکے ‘ اور سنو اور مانو‘ اور خرچ کرو اپنے بھلے‘کو…‘‘