جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ جماعت سازی کا جو طریقہ ہمیں قرآن میں ملتا ہے‘ رسول اللہ کی سُنّت میں نظر آتا ہے‘ اور اُمت ِمسلمہ کی تیرہ سوسالہ تاریخ میں جس کی مثالیں ملتی ہیں وہ صرف ایک ہے. یہ طریقہ بیعت کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے. سوال یہ ہے کہ بیعت سے کیا مراد ہے؟

عربی میں 
بَاعَ یَبِیعُ کے معنی ہیں بیچنا. اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بیچنے کا عمل دو طرفہ ہوتا ہے. اس لیے کہ اس کی اصل ’’تبادلہ‘‘ ہے. مثلاً آپ روپے دے کر آٹا حاصل کر لیتے ہیں‘ اور کرنسی کی ایجاد سے پہلے ایک جنس کے تبادلے میں دوسری جنس حاصل کی جاتی تھی. یہاں اس سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا کہ آپ روپے کو قیمت سمجھیں اور آٹے کو جنس یا آٹے کو قیمت قرار دیں اور روپے کو جنس کہہ لیں. وجہ یہ ہے کہ جہاں بھی بیچنے کا عمل ہو گا وہاں خریدنے کا عمل بھی لامحالہ ہو گا. 

اس تفصیل سے میرا مقصد یہ ہے کہ آپ سورۃ التوبہ کی اس آیت کے اصل مفہوم کو اور اس آیت کی شان اور عظمت کو سمجھ سکیں:
 
اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ ؕ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَیَقۡتُلُوۡنَ وَ یُقۡتَلُوۡنَ ۟ وَعۡدًا عَلَیۡہِ حَقًّا فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ وَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسۡتَبۡشِرُوۡا بِبَیۡعِکُمُ الَّذِیۡ 
بَایَعۡتُمۡ بِہٖ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۱۱﴾ (التوبۃ) 
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے خریدلی ہیں مسلمانوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے. وہ لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں‘ پھر قتل کرتے بھی ہیں اور قتل ہوتے بھی ہیں. وعدہ ہو چکا اللہ کے ذمہ پر سچا تورات اور انجیل اور قرآن میں‘ اور کون ہے جو اپنے وعدے کا پورا کرنے والا ہو اللہ سے بڑھ کر؟ پس خوشیاں منائو اپنے اس سودے پر جو تم نے اُس سے کیا ہے‘ اور یہی ہے بڑی کامیابی.‘‘

یہ آیت قرآن مجید کی اہم ترین آیات میں سے ایک ہے. بدقسمتی سے آج ہماری زندگیوں میں اس آیت کی وہ اہمیت نہیں رہی جو صحابہ کرام jکی زندگیوں میں اس کو حاصل تھی. یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ مؤمن اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک خرید و فروخت کا معاملہ ہوتا ہے. اس سودے میں اللہ تعالیٰ خریدار ہے اور مؤمن فروخت کرنے والا ہے. ایمان لانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو‘ اپنی صلاحیتوں اور اوقات کو‘ اپنے وسائل اور اموال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں کھپا دینے کے لیے آمادہ ہے‘ اور ان تمام قربانیوں کے عوض اس سے موت کے بعد کی زندگی میں جنت کا وعدہ کیا جاتا ہے. یہ وہ سودا ہے جو مؤمن اور اللہ تعالیٰ کے مابین انجام پاتا ہے. اس سودے کے نتیجے میں اہل ایمان اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں ‘تاکہ اللہ کے دین کا بول بالا ہو. اس جنگ میں وہ اللہ کے دشمنوں کو بھی قتل کرتے ہیں اور خود بھی قتل ہوتے ہیں.

یہ سودا جو ایک مؤمن اور اللہ تعالیٰ کے مابین ہوتا ہے نقد کا نہیں بلکہ ادھار کا معاملہ ہے. مؤمن سے مطالبہ یہ ہے کہ اس کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اسے اللہ کی راہ میں صرف کر دے. اور جواباً اسے ملتا کیا ہے؟ محض ایک وعدہ! اللہ کی طرف سے یہ وعدہ کہ اسے اس کی محنت اور قربانی کا صلہ آخرت میں ملے گا. ظاہر ہے کہ اس معاملے کو دیکھ کر کوئی بھی شخص یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ اس معاملے میں کافی خطرہ 
(risk) نظر آتا ہے. اگر میں اپنا سب کچھ یہاں اللہ کی راہ میں قربان کر دوں اور موت کے بعد مجھے اس کا صلہ نہ ملے تب تو یہ گھاٹے کا سودا ہوا. اس طرح تو میں دنیا میں بھی نقصان میں رہا اور آخرت میں بھی. 

ظاہر ہے کہ ادھار کے سودے میں شکوک و شبہات کا پیدا ہو جانا فطری امر ہے. یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نہایت شدّومدّ کے ساتھ فرمایا ہے کہ اس وعدے کا پورا کرنا اس نے اپنے ذمے لے رکھا ہے. لہذا کسی کو اس معاملے میں ہرگز متزلزل نہ ہونا چاہیے. یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے اور وہ لازماً اسے پورا کرے گا. اس نے یہ وعدہ تین مرتبہ کیا ہے‘ تورات میں‘ انجیل میں‘ اور پھر قرآن مجید میں. اور اللہ سے زیادہ اپنے قول کا سچا اور وعدے کا پورا کرنے والا اور کون ہو سکتاہے؟ لہذا اس سودے پر جو تم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہے خوشیاں مناؤ. تم سے جو کچھ قربان کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ نہایت حقیر شے ہے‘ اور جس کا وعدہ کیا جا رہا ہے وہ ابدی راحت ہے. یہی سب سے بڑی کامیابی ہے جو کسی انسان کو حاصل ہو سکتی ہے. 

سورۃ التوبہ کی یہ آیت لفظ 
اِشْتَرٰی سے شروع ہو کر بَیْعِکُمْ پر ختم ہوتی ہے. ان دونوں الفاظ میں کیا فرق ہے؟ اِشْتَرٰی کا مطلب ہے خریدنا‘ اور بیع سے مراد وہ تبادلہ ہے جو دو اشخاص کے مابین ہوتا ہے اور جسے ہم ’’خرید و فروخت‘‘ کہتے ہیں. عربوں کا عام رواج تھا کہ جب ان کے درمیان خرید و فروخت کا معاملہ ہوتا تووہ پہلے تو قیمت اور جنس کی خوبیوں یا خامیوں کے متعلق بحث کرتے‘ اور جب معاملہ طے پا جاتا تو وہ ہاتھ ملا کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اب کوئی فریق سود ے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا. یہ آخری معاہدہ‘ جس کی علامت کے طورپر ہاتھ ملائے جاتے تھے‘ مبایعت کہلاتا ہے‘ اور یہی وہ چیز ہے جو بیعت کی بنیاد بنی.