یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ سودا اصل میں تو اللہ تعالیٰ اور مؤمن کے درمیان ہوتا ہے‘ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ بذاتہٖ اور براہِ راست یہ سودا نہیں کرتا‘ لہذا ہمیں ایک درمیانی فریق کی ضرورت پڑتی ہے. اللہ تعالیٰ مؤمن کی جان و مال کا خریدار ہے‘ اور مؤمن اس سودے کے لیے تیار ہے‘ لیکن یہ سودا کس طرح انجام پائے گا؟ مؤمن کو کون بتائے گا کہ اسے کب اور کس طرح اپنی جان اور اپنے مال کو پیش کرنا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ مکی زندگی کے بارہ برسوں میں حکم یہ تھا کہ کوئی مزاحمت یا جوابی کارروائی نہیں کرنا ہے. پھر مدینہ میں جا کر حکم ملا کہ اب تصادم اور جنگ کا مرحلہ آ گیا ہے. لیکن یہ تمام احکام کس نے دیے؟ اس موقع پر تنظیم اور امیر اور سمع و طاعت کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے.

یہ سارا معاملہ فی الواقع بہت منطقی اور سادہ ہے. اللہ تعالیٰ خریدار ہے‘ مؤمن اپنے جان و مال کو جنت کے عوض فروخت کر رہا ہے‘ اور ان دونوں کے درمیان رسول اللہ تھے. اصل خریدار تو اللہ تعالیٰ ہے‘ لیکن اطاعت کا وعدہ حضور سے کیا جا رہا ہے. چنانچہ قرآن مجید میں آتا ہے: 

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیۡہُ اللّٰہَ فَسَیُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿٪۱۰﴾ (الفتح) 
’’(اے نبیؐ ) جو لوگ تم سے بیعت کر رہے تھے وہ دراصل اللہ سے بیعت کر رہے تھے. ان کے ہاتھ پر اللہ کا ہاتھ تھا. اب جو اس عہد کو توڑے گا اس کی عہد شکنی کاوبال اس کی اپنی ہی ذات پر ہو گا‘ اور جو اس عہد کو وفا کرے گا جو اس نے اللہ سے کیا ہے تو اللہ عنقریب اسے بڑا اجر عطا فرمائے گا.‘‘

معلوم ہوا کہ یہ اصل میں ایک سہ فریقی معاہدہ ہے‘ جان و مال کا سودا تو اللہ تعالیٰ اور مؤمن کے درمیان طے پایا‘ لیکن اطاعت کا وعدہ محمدٌ رسول اللہ سے ہوا. مطلب یہ کہ گویا مؤمن رسول اللہ سے عرض کرتا ہے کہ میری زندگی اور میرا مال آپؐ ‘کی خدمت میں پیش ہیں‘ جس طرح آپ حکم دیں گے ویسے ہی ان چیزوں کو قربان کردوں گا. اس میں آخری مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور اُخروی کامیابی ہے.

وہ بیعت جو رسول اللہ نے مسلمان مَردوں سے لی تھی‘ اس کا ذکر قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے‘ اگرچہ احادیث میں اسے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے. تاہم وہ بیعت جو حضور نے خواتین سے لی تھی‘ اس کا ذکر واضح الفاظ میں قرآن حکیم میں موجود ہے. 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲﴾ (الممتحنہ)
’’اے نبیؐ ! جب تمہارے پاس مؤمن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی‘ چوری نہ کریں گی‘ زنا نہ کریں گی‘ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی‘ اور اپنے ہاتھ پائوں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی‘ اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی‘ تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو‘ یقینا اللہ درگزر فرمانے والا رحم کرنے والا ہے‘‘.

سیرتِ نبویؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد جو سب سے اہم بیعت ہوئی ہے وہ ’’بیعتِ رضوان‘‘ ہے‘ جو رسول اللہ نے صلح حدیبیہ سے متّصلاً قبل صحابہؓ سے لی تھی. تاہم ہجرت سے پہلے کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ دو نہایت اہم مواقع پر بیعت ہوئی ہے. یعنی جب یثرب سے آنے والوں نے حضور سے قول و قرار کیا. 

منیٰ کا جو مقام مکہ سے قریب ترین ہے وہ وادیٔ عقبہ ہے‘ جہاں حج کے موقع پر یثرب کے چھ افراد نے رسول اللہ  سے ملاقات پر اسلام قبول کیا. اگلے برس ان میں سے پانچ افراد دوبارہ حج پر آئے اور سات مزید افراد کو ہمراہ لائے. اس موقع پر ان بارہ افراد نے حضور سے وہ قول و قرار کیا جسے بیعتِ عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے. اس بیعت کے الفاظ وہی تھے جو بیعت النساء کے حوالے سے سورۃ الممتحنہ میں وارد ہوئے ہیں. اس سے اگلے برس بہتر مرد اور دو خواتین یثرب سے آئے اور انہوں نے حضور سے وہ عہد کیا جسے بیعتِ عقبہ ثانیہ کہتے ہیں. اس دوسری بیعت کے الفاظ نہایت اہم ہیں‘ جنہیں ہم ابھی بیان کریں گے. 

رسول اللہ نے اپنے صحابہؓ سے مختلف اوقات میں کئی قسم کے عہد لیے ہیں. واقعہ یہ ہے کہ جب بھی کسی مضبوط وعدے کی ضرورت پیش آئی تو حضور نے ہمیشہ بیعت ہی کا معاملہ فرمایا. چنانچہ علم حدیث کے ایک عظیم عالم امام نسائی ؒ نے دس مختلف اقسام کی 
بیعتوں کا ذکر کیا ہے جو حضور نے اپنے صحابہؓ سے لی تھیں: (۱) سمع و طاعت کی بیعت (۲) ہمیشہ سچ بولنے پر بیعت (۳) اس بات پر بیعت کہ حضور ‘کو صحابہ میں سے کسی کو بھی ترجیح دینے کا اختیار ہو گا (۴) اس بات کا عہد کہ ہم میدانِ جنگ سے نہ بھاگیں گے (۵) اس بات کا وعدہ کہ ہم جہاد کریں گے (۶) اس بات پر بیعت کہ ہمیشہ عدل پر مبنی بات کہیں گے (۷) ہر مسلمان کی خیر خواہی کی بیعت (۸) اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے پر بیعت (۹) اس بات کا عہد کہ ہم حضور کے حکم پر اپنے گھروں کو چھوڑ دیں گے. 

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وعدہ لینے اور نظم قائم کرنے کا واحد طریقہ جو ہمیں رسول اللہ کی سیرت اور سُنّت سے ملتا ہے وہ بیعت پر مبنی ہے. چنانچہ غزوۂ احزاب کے موقع پر جب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین خندق کھود رہے تھے تو ان کی زبانوں پر یہ شعر جاری تھا:
؎
نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحمَّدًا 
عَلیَ الْجِھَادِ مَابَقِینَا اَبَدًا
(۱)