معلوم ہوا کہ یہ اصل میں ایک سہ فریقی معاہدہ ہے‘ جان و مال کا سودا تو اللہ تعالیٰ اور مؤمن کے درمیان طے پایا‘ لیکن اطاعت کا وعدہ محمدٌ رسول اللہﷺ سے ہوا. مطلب یہ کہ گویا مؤمن رسول اللہﷺ سے عرض کرتا ہے کہ میری زندگی اور میرا مال آپؐ ‘کی خدمت میں پیش ہیں‘ جس طرح آپ حکم دیں گے ویسے ہی ان چیزوں کو قربان کردوں گا. اس میں آخری مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور اُخروی کامیابی ہے.
وہ بیعت جو رسول اللہﷺ نے مسلمان مَردوں سے لی تھی‘ اس کا ذکر قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے‘ اگرچہ احادیث میں اسے تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے. تاہم وہ بیعت جو حضورﷺ نے خواتین سے لی تھی‘ اس کا ذکر واضح الفاظ میں قرآن حکیم میں موجود ہے.
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا جَآءَکَ الۡمُؤۡمِنٰتُ یُبَایِعۡنَکَ عَلٰۤی اَنۡ لَّا یُشۡرِکۡنَ بِاللّٰہِ شَیۡئًا وَّ لَا یَسۡرِقۡنَ وَ لَا یَزۡنِیۡنَ وَ لَا یَقۡتُلۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ وَ لَا یَاۡتِیۡنَ بِبُہۡتَانٍ یَّفۡتَرِیۡنَہٗ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِنَّ وَ اَرۡجُلِہِنَّ وَ لَا یَعۡصِیۡنَکَ فِیۡ مَعۡرُوۡفٍ فَبَایِعۡہُنَّ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُنَّ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲﴾ (الممتحنہ)
’’اے نبیؐ ! جب تمہارے پاس مؤمن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی‘ چوری نہ کریں گی‘ زنا نہ کریں گی‘ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی‘ اور اپنے ہاتھ پائوں کے آگے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی‘ اور کسی امر معروف میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی‘ تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو‘ یقینا اللہ درگزر فرمانے والا رحم کرنے والا ہے‘‘.
سیرتِ نبویؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے بعد جو سب سے اہم بیعت ہوئی ہے وہ ’’بیعتِ رضوان‘‘ ہے‘ جو رسول اللہﷺ نے صلح حدیبیہ سے متّصلاً قبل صحابہؓ سے لی تھی. تاہم ہجرت سے پہلے کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ دو نہایت اہم مواقع پر بیعت ہوئی ہے. یعنی جب یثرب سے آنے والوں نے حضورﷺ سے قول و قرار کیا.
منیٰ کا جو مقام مکہ سے قریب ترین ہے وہ وادیٔ عقبہ ہے‘ جہاں حج کے موقع پر یثرب کے چھ افراد نے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات پر اسلام قبول کیا. اگلے برس ان میں سے پانچ افراد دوبارہ حج پر آئے اور سات مزید افراد کو ہمراہ لائے. اس موقع پر ان بارہ افراد نے حضورﷺ سے وہ قول و قرار کیا جسے بیعتِ عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے. اس بیعت کے الفاظ وہی تھے جو بیعت النساء کے حوالے سے سورۃ الممتحنہ میں وارد ہوئے ہیں. اس سے اگلے برس بہتر مرد اور دو خواتین یثرب سے آئے اور انہوں نے حضورﷺ سے وہ عہد کیا جسے بیعتِ عقبہ ثانیہ کہتے ہیں. اس دوسری بیعت کے الفاظ نہایت اہم ہیں‘ جنہیں ہم ابھی بیان کریں گے.
رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہؓ سے مختلف اوقات میں کئی قسم کے عہد لیے ہیں. واقعہ یہ ہے کہ جب بھی کسی مضبوط وعدے کی ضرورت پیش آئی تو حضورﷺ نے ہمیشہ بیعت ہی کا معاملہ فرمایا. چنانچہ علم حدیث کے ایک عظیم عالم امام نسائی ؒ نے دس مختلف اقسام کی بیعتوں کا ذکر کیا ہے جو حضورﷺ نے اپنے صحابہؓ سے لی تھیں: (۱) سمع و طاعت کی بیعت (۲) ہمیشہ سچ بولنے پر بیعت (۳) اس بات پر بیعت کہ حضورﷺ ‘کو صحابہ میں سے کسی کو بھی ترجیح دینے کا اختیار ہو گا (۴) اس بات کا عہد کہ ہم میدانِ جنگ سے نہ بھاگیں گے (۵) اس بات کا وعدہ کہ ہم جہاد کریں گے (۶) اس بات پر بیعت کہ ہمیشہ عدل پر مبنی بات کہیں گے (۷) ہر مسلمان کی خیر خواہی کی بیعت (۸) اللہ کے راستے میں جان قربان کرنے پر بیعت (۹) اس بات کا عہد کہ ہم حضورﷺ کے حکم پر اپنے گھروں کو چھوڑ دیں گے.
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وعدہ لینے اور نظم قائم کرنے کا واحد طریقہ جو ہمیں رسول اللہﷺ کی سیرت اور سُنّت سے ملتا ہے وہ بیعت پر مبنی ہے. چنانچہ غزوۂ احزاب کے موقع پر جب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین خندق کھود رہے تھے تو ان کی زبانوں پر یہ شعر جاری تھا:؎
نَحْنُ الَّذِینَ بَایَعُوا مُحمَّدًا
عَلیَ الْجِھَادِ مَابَقِینَا اَبَدًا
(۱)