ڈاکٹر اسرار احمد صاحب دینی حلقوں میں تو کسی تعارف کے محتاج نہیں. ڈاکٹرصاحب اس اعتبار سے ایک منفرد حیثیت کے مالک ہیں کہ آپ کی بنیادی تعلیم سائنس اور طب کی ہے ‘مگر آپ کی نمایاں خدمات دین اسلام کی تعلیم و تبلیغ میں نظر آتی ہیں. ڈاکٹر صاحب نے ایسے وقت میں طب کے پیشہ کو ترک کر کے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور اوقات کو دین کے احیاء کے لیے وقف کیا جب اُمت قحط الرجال کا شکار تھی‘ لہٰذا ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال کے شعر ؎
ہے عیاں فتنہ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کے مصداق اُمت کی پاسبانی فرمائی.
راقم الحروف جب ایچی سن کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے تعینات تھا اُس وقت ڈاکٹر صاحب کو وقتاً فوقتاً زحمت دیتا رہا ‘مگر ہر دفعہ ڈاکٹر صاحب نے ہماری دعوت کو شرفِ قبولیت بخشا اور نہ صرف کالج کے طلبہ اور اساتذہ کو اپنے ایمان افروز خطابات سے نوازا بلکہ کالج کی جز وقتی لیکچرر شپ بھی قبول فرما لی. اس دوران ڈاکٹر صاحب کے دو اہم خطابات’’نجات کی راہ‘‘ اور’’علامہ اقبال اور ہم‘‘ راقم نے بڑے شوق سے طبع کروائے اور بہت پسند کیے گئے.
بعد ازاں جب مجھے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تو ڈاکٹرصاحب تکلیف فرما کر وقتاً فوقتاً یونیورسٹی تشریف لے جاتے رہے اور خطاباتِ جمعہ کے علاوہ ’’سیرۃ النبیﷺ ‘‘ اور ’’اُمت ِمسلمہ کا ماضی‘ حال اور مستقبل‘‘ جیسے اہم موضوعات پر یاد گار خطاب فرمائے اور ڈاکٹر صاحب نے زرعی یونیورسٹی کے سینیٹ اور سنڈیکیٹ کی رکنیت بھی قبول فرما لی.
راقم کا گہرا احساس یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اللہ نے جو قوتِ استدلال‘ اندازِ بیان اور قوتِ افہام عطا فرمائی ہے وہ اس نے آج تک کسی پروفیسر میں نہیں پائی.
معاشیات کے میدان میں اسلام کی اصل تعلیمات کیا ہیں؟ یہ وہ مسئلہ ہے کہ جس پر کوئی واضح بات تا حال سامنے نہیں آئی تھی. ہماری کوشش زیادہ تر یہی رہی کہ Western Economics میں چند تبدیلیاں کر کے اسی کو اسلام کے مطابق ڈھالا جائے‘ جو مناسب نہیں. چونکہ راقم بھی اسی شعبہ ٔعلم سے تعلق رکھتا ہے اس لیے اس کو اِس مضمون سے خاص دلچسپی تھی. لہٰذا ہم نے اس معاملے میں بھی ڈاکٹر صاحب سے رجوع کیا. اور ڈاکٹر صاحب نے زرعی یونیورسٹی کے کلیہ معاشیات و دیہی عمرانیات کے تحت طلبہ و ماہرین معاشیات سے ’’اسلام کا معاشی نظام‘‘ کے موضوع پر مفصل خطاب فرمایا. ڈاکٹر صاحب کے اس خطاب سے جہاں اسلام کی تعلیمات کے نئے گوشے سامنے آئے وہاں یہ امر سب حاضرین کے لیے حیرت کا باعث ہوا کہ ڈاکٹر صاحب معاشیات کے نہ تو کبھی طالب علم رہے تھے اور نہ ہی اس شعبہ سے کبھی متعلق. لیکن اپنی بصیرتِ باطنی کی بنیاد پر ڈاکٹرصاحب ایک بہت بڑے معیشت دان معلوم ہو رہے تھے. ڈاکٹر صاحب نے اس خطاب میں اسلام کی اصلی تعلیمات کو قرآن حکیم کی محکم آیات کے حوالے سے پیش کیا اور عام معمول کے خلاف ڈاکٹر صاحب نے موجودہ نظاموں میں سے کسی پر اسلام کی مہر تصدیق ثبت کرنے کی بجائے اسلام کی اپنی تعلیمات کو پیش کیا. ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اشترا کی نظام کاآئیڈیل ’’مساوات‘‘ اور سرمایہ دارانہ نظام کا آئیڈیل ’’آزادی‘‘ ہے‘ جبکہ اسلام مساوات اور آزادی دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے‘ جب کہ اس کا اصل نعرہ ’’عدل‘‘ ہے. ڈاکٹر صاحب نے اسلام کے ’’روحانی‘‘ اور ’’قانونی‘‘ نظام کا جو فرق بیان فرمایا اس نے تو گویا اس موضوع پر جملہ پیچیدگیوں کو حل کر دیا.
مجھے اُمید ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا یہ مقالہ تحقیق و تجسس کی نئی راہیں کھولے گا اور ملکی معیشت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے ممد و معاون ثابت ہو گا.
غلام رسول چودھری