بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ وَ نُؤْمِنُ بِہٖ وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَا لِنَا مَنَ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ وَمَنْ یُّضْلِلْہُ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ. وَ نَشْھَدُ اَنْ لآَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَنَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ فَصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ تَسْلِیْماً کَثِیْرًا کَثِیْرَا اَمَّا بَعْدُ :
حضرات! اس دور کے بارے میں ایک بات عام طور پر کہی جاتی ہے جو کچھ زیادہ غلط بھی نہیں ہے کہ یہ معاشیات کا دَور ہے. واقعہ یہ ہے کہ آج کا انسان بنیادی طور پر معاشی انسان بن کر رہ گیا ہے.
اجتماعیاتِ انسانی میں بھی یقینا معاشیات اور اِقتصادیات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے. اور ہمارے ملک میں اسلام کی جانب جو قدم اٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے ضمن میں فطری طور پر یہ سوال ذہنوں کو پریشان کر رہا ہے کہ اسلام کا اقتصادی نظام کیا ہے؟ بعض لوگوں نے اسلامی اقتصادیات کا جو تصور پیش کیا ہے اس کی وجہ سے ایک تصور لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے کہ شاید اسلام کا اقتصادی نظام ہمارے موجودہ نظام میں زکوٰۃ اور عشر کے اضافے اور ذرا مزید ہمت کر کے سود کی لعنت کو ختم کر دینے کا نام ہے. گویا معیشت کا بنیادی ڈھانچہ یہی رہے گا اور بس اتنا سا تغیر و تبدل ہی مطلوب ہے. اور اسی بنیاد پر کچھ لوگ بدنیتی کے تحت اور کچھ مغالطے سے لوگوں کو بدظن کر رہے ہیں کہ اسلام کے پاس معاشی مسائل کا کوئی حقیقی‘ واقعی اور مؤثر حل موجود نہیں ہے. میں اسی لیے آج یہ جرأت کر رہا ہوں کہ اسلام کے معاشی نظام یا قرآن مجید کی اقتصادی ہدایات کے بارے میں کچھ معروضات پیش کروں.
حضرات! میں اپنی اصل گفتگو کا آغاز کرنے سے قبل دو معذرتیں پیش کروں گا اور دو مقدمات.
معذرتیں
الف: پہلی معذرت تو یہ کہ اصولاً اسلامی معاشیات پر گفتگو کرنے والے شخص کو جدید معاشیات اور اقتصادیات کا علم بھی براہِ راست ہونا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن و حدیث اور فقہ پر بھی اس کی نظر بہت گہری ہو. ورنہ کم از کم کسی ایک میدان کے اعتبار سے تو وہ یہ دعویٰ کر سکے کہ اس کے علم کی تحصیل کسی درجے میں اس نے مکمل کر لی ہے. جبکہ مجھے ان میں سے کسی چیز کا دعویٰ نہیں میں اپنے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں قرآن مجید کا طالب علم ہوں. البتہ قرآن چونکہ ھُدًی لِّلنَّاسِ (تمام انسانوں کے لیے راہنمائی) ہے اور اس کا اصل موضوع ہی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے متعلق رہنمائی دینا ہے‘ لہٰذا اصولاً بھی یہ ممکن نہیں تھا اور فی الواقع بھی ایسا نہیں ہے کہ معاشیات جیسے اہم موضوع پر کوئی ہدایات اس میں نہ دی گئی ہوں. چنانچہ اس میں جہاں عبادات کے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں اور ان کی حکمتیں بھی زیربحث آئی ہیں‘ اسی طرح زندگی کے تمام گوشے اس میں موضوعِ بحث بنے ہیں اور اس ضمن میں اَحکام بھی وارد ہوئے ہیں اور ان کی حکمتوں کا بیان بھی ہوا ہے. معاشیات کے اعتبار سے بھی قرآن مجید میں ایک طرف تو کھلے کھلے احکام بیان کیے گئے ہیں‘ دوسری طرف کچھ ایسے مقاصد اور بنیادی حکمتوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن کا لحاظ ان احکام میں رکھا گیا ہے. لہٰذا میں ان دونوں پہلوئوں سے کوشش کروں گا کہ اپنے مطالعے کا حاصل آپ حضرات کے سامنے لاؤں.
ب : دوسری معذرت یہ ہے کہ میں آپ حضرات کے سامنے اپنی بات نہ فلسفیانہ انداز میں پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہوں اور نہ ہی میں اس کی کوشش ہی کروں گا. میری کوشش یہ ہو گی کہ جن اصطلاحات کے لوگ عادی ہو چکے ہیں انہی کے حوالے سے بات کروں تاکہ بات فوراً سمجھ میں آ جائے. مثلاًCapitalism (سرمایہ داری نظام) اور Socialism (اشتراکی نظامِ معیشت)کی اصطلاحات ہمارے ہاں معروف ہیں. لوگ اکثر و بیشتر ان اصطلاحات اور ان کے مفہوم سے بنیادی طور پر واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ یہی وہ نظام ہائے معیشت ہیں جو اس وقت بالفعل دنیا میں قائم ہیں (۱) . مجھے خوب اندیشہ ہے کہ اس طرح عین ممکن ہے کہ مجھ پر over simplification کا الزام عائد کیا جائے یا کوئی صاحب یہ سمجھیں کہ میں جدید اصطلاحات سے مرعوب ہوں‘ لیکن اس کے باوجود میں بات پہنچانے کے لیے اس طریق کو اختیار کر رہا ہوں‘ کیونکہ میرے نزدیک بات ذہنوں تک پہنچانے کے لیے یہی طریقہ سب سے مؤثر ہے.
دو مقدمات
اب میں چاہتا ہوں کہ دو مقدمات آپ کے سامنے رکھوں ‘کیونکہ میری گفتگو انہی پر مبنی (based) ہو گی.
پہلا مقدّمہ: اس اصول پر مبنی ہے کہ دنیا کے ہر نظام کے دو پہلو ہوتے ہیں: ایک فکری اساس اور دوسرا علمی ڈھانچہ. یہ دونوں پہلو باہم مربوط ہوتے ہیں اور کسی بھی نظام کو اس کی فکری اساس سے ہٹا کر موضوعِ گفتگو نہیں بنایا جا سکتا. اسی طرح اسلام کے بارے میں نظریاتی اساس اور بنیاد کا معاملہ انتہائی اہم ہے ‘جس کو ہم اصطلاحاً ایمان سے تعبیر کرتے ہیں اسلام در حقیقت ایمان پر قائم ہے. اللہ پر یقین کہ اس کائنات کا ایک خالق اور مالک ہے. اُس نے اس کائنات کو اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی (ایک متعین وقت تک) کے لیے پیدا کیا ہے. یہ ہمیشہ باقی رہنے والی چیز نہیں ہے اور ہماری زندگی یہ دُنیوی زندگی (۱) ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ ہمارے پاس ایک تیسرا نظامِ معیشت ہے ‘ جو ان دونوں کے اچھے پہلوؤں کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے‘ لیکن یہ چیز اُس وقت تک صرف ایک دعویٰ کی حیثیت رکھتی ہے جب تک کسی معاشرے یا کسی ملک میں یہ نظام قائم کر کے نہ دکھایا جائے. ہی نہیں بلکہ اصل زندگی موت کے بعد ہے. انسان کا اصل مسئلہ اُس زندگی سے متعلق ہے‘ اِس زندگی سے نہیں. گویا ہماری اعتقادی اساس اور نظریاتی بنیاد کے اعتبار سے نسبت و تناسب (ratio and proportion ) میں اِس دُنیوی زندگی کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں‘ یہ تو گویا نہ ہونے کے برابر ہے. یہ عارضی اور فانی ہے جب کہ وہ ابدی ہے اور ہمیشہ کی زندگی ہے. یہ ہمارے ایمان کی دو بنیادیں ہیں جو قرآن حکیم کی ایک ہی آیت میں ان مختصر الفاظ میں سموئی ہوئی ہیں: ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ کہ اللہ ہی ہمارامبدأ ہے اور معاد بھی . یعنی ہم اللہ کے پاس سے آئے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں. ایمان اگر واقعتا دل میں موجود ہو تو اس کا حاصل تو یہی ہے کہ دنیا میں اس طرح زندگی بسر کی جائے جیسے کوئی اجنبی ہو یا راہ چلنے والا مسافر (۱) ایک راہ گزر کو اپنے راستے سے جو دلچسپی ہو سکتی ہے اس دنیا اور اس کے متعلقات کے ساتھ اس سے زائد دلچسپی از رُوئے ایمان درست نہیں ہے. اسلام کی اس بنیاد سے دو نتیجے اخذکیجیے.
(۱) پہلا یہ کہ اگرچہ سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام بظاہر تو ایک دوسرے کی کامل ضد ہیں‘ کیونکہ نظام کے اعتبار سے ایک مشرق کی بات ہے تو دوسری مغرب کی ‘لیکن فکری بنیاد ان دونوں کی ایک ہی ہے‘ یعنی مادّہ پرستی. یہ مادّیت (Materialism) ہی تھی جس نے ایک قدم اور آگے بڑھا کر جدلی مادّیت(Dialectical Materialism) کی شکل اختیار کر لی ہے. مادّیت ہی بنیاد ہے مغربی جمہوریت (Western Democracy) کی کہ جس کے ساتھ کیپیٹلزم کا ضمیمہ لگا ہوا ہے اور اس مادّیت ہی کی ایک زیادہ ترقی یافتہ شکل جدلی مادیت ہے ‘جس سے وہ دوسرا نظام پھوٹا ہے جسے ہم سوشلزم اور کمیونزم یا اس کے مختلف شیڈز (shades ) سے پہچانتے ہیں ایک بات تو یہ پیش نظر رہے کہ اسلام کا معاملہ ان (۱) حضور اکرمﷺ نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرiکے شانے پکڑ کرازراہِ شفقت فرمایا: کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ ’’دُنیا میں اس طرح رہو جیسے کوئی اجنبی یا راہ چلتا مسافر.‘‘ (صحیح البخاری وسنن الترمذی) دونوں سے بنیادی طور پر جدا ہے. (۱)
(۲) اور دوسری بات ذہن میں یہ رکھنا ہو گی کہ چونکہ اسلام کا نظام اپنے تفصیلی ڈھانچے سمیت صرف اپنی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتا ہے اور یہ کسی دوسرے نظام کی پیوند کاری قبول نہیں کرتا ‘لہٰذا پہلے اس نظریاتی بنیاد کا استحکام ضروری ہے ‘اس لیے کہ اسلام کھڑا ہو گا تو ایمان کی بنیاد پر.
دوسرا مقدّمہ: گو ایمان کی رُو سے اصل اہمیت معاد(آخرت) کی ہے‘ معاش کی نہیں. یہ دُنیا اور اس کا ساز و سامان یہیں رہ جانے والا ہے اور انسانوں کے لیے ثانوی اہمیت کا حامل ہے ‘لیکن ساتھ ہی ساتھ اسلام کے پورے نظامِ فکر و عمل میں عدل و قسط اور انصاف کے قیام کو بڑی اہمیت دی گئی ہے.
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی جو شانیں بیان ہوئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ (آل عمران:۱۸) یعنی عدل و انصاف کو قائم کرنے والاہے. پھر اسی کا حکم سورۃ النساء میں ان الفاظِ مبارکہ میں وارد ہوا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ (النساء :۱۳۵)
’’اے ایمان والو! عدل و انصاف کے قائم کرنے والے اور اللہ کے گواہ بنو. ‘‘
اور سورۃ المائدۃ میں یہی حکم عکسی ترتیب سے وارد ہوا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ (المائدۃ :۸)
’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہونے والے اور عدل و انصاف کے گواہ بن جاؤ. ‘‘
ان سے اہم تر ہے یہ حقیقت کہ قرآن حکیم میں ایسی آیات بھی ہیں جن میں بالکل معین طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ کتابوں کے نازل کرنے اور رسولوں کے بھیجنے کا اصل مقصد اور اسلام کے پورے نظام کا مرکزی خیال ہی عدل و قسط کا نظام قائم کرنا ہے. (۱) اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَاحِدَۃ . کفر کے کتنے بھی رنگ(shades) ہوں ‘کتنی ہی مختلف صورتیں ہوں وہ درحقیقت ایک ہی شے ہے ‘ایک ہی ملت ہے. گویا اسلام کے نزدیک یہ ایک اہم قدر ہے. فرمایا:
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ (الحدید:۲۵)
’’ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو واضح نشانیاں دے کر اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم ہوں.‘‘
ابنیاء و رسل کے بارے میں اس عام قاعدہ کلیہ پر مستزاد ہے وہ ہدایت جو معین طور پر نبی اکرم ﷺ کو دی گئی:
فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ (الشوریٰ:۱۵)
’’تو (اے محمدﷺ ) آپ اسی دین کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیے اور جیسا کہ آپ کو حکم ہوا ہے اسی پر قائم رہیے اور ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجیے ‘ اور کہہ دیجیے کہ جو کتاب اللہ نے نازل فرمائی ہے میں اس پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے حکم ہوا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں.‘‘
جب مسلمان ایران پر حملہ آور ہوئے تو ایرانیوں نے حملے کی وجہ دریافت کی‘ تو فاتح ایران حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں ان کو جواب دیا:
’’ہم تو بھیجے گئے ہیں(خود نہیں آئے) کہ لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کے نور میں اور بادشاہوں کے ظلم و ستم کے پنجے سے نکال کر اسلام کے عدل میں لے آئیں.‘‘
اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ خطبہ جو آپ نے بیعت خلافت کے بعد ارشاد فرمایا تھا اور جو واقعتا ایک اسلامی ریاست کے مقاصد کو متعین کرتا ہے ‘اس میں وہ جملہ یاد رکھنے کے قابل ہے:
’’تم میں سے ہر قوی میرے لیے ضعیف ہے جب تک اس سے حق وصول نہ کر لوں اور تم میں سے ہر ضعیف میرے لیے قوی رہے گا جب تک اس کو اس کا حق نہ دلوا دوں.‘‘
تو گویا قیامِ عدل و قسط اسلام کا مرکزی خیال ہے.
حال ہی میں جو سالانہ قرآن کانفرنس کراچی میں ہوئی اس میں ایک صاحب نے بڑی عمدہ بات کی طرف توجہ دلائی کہ اس وقت جو دو نظام دنیا میں قائم ہیں‘ ان میں ایک ایک لفظ مرکزی اہمیت کا حامل ہے. کیپیٹلزم کا مرکزی خیال آزادی (freedom) ہے جبکہ کمیونزم کا مساوات (equality) ہے. یہ ان لوگوں کے سلوگن ہیں. ذہن میں رہے کہ یہ دونوں بڑی اہم انسانی قدریں ہیں. لیکن اسلام کا بنیادی خیال (basic theme) ’’عدل‘‘ ہے. وہ آزادی اور مساوات دونوں کو عدل کا پابند کرتا ہے. گویا وہ آزادی اور مساوات کے درمیان بھی عدل قائم کرتا ہے تاکہ نہ آزادی اتنی بڑھ جائے کہ مساوات کو بالکل ہڑپ کر جائے‘ یعنی freedom at the cost of equality نہ ہو اور نہ ہی مساوات کا ہوا اتنا بڑھ جائے کہ وہ آزادی کو بالکل نگل جائے‘ یعنی equality at the cost of freedom بھی نہ ہو. اسلام کا مرکزی تصور عدل ہے اور وہ اس عدل کو ہر گوشہ زندگی میں نافذ کرنا چاہتا ہے.
قیامِ عدل و قسط کی اہمیت
انسانی اجتماعیات کے بہت بڑے عالم اور جدید معاشرتی اور سماجی مسائل کی طرف دو صدی قبل توجہ دلانے والے اور ان کا قرآن و حدیث کی روشنی میں حل پیش کرنے والے عظیم مجددِ دین امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی m نے اسلام میں عدل و قسط کے قیام کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے‘ اور اس پر انہوں نے بہت عمدہ دلیل قائم کی ہے کہ اسلام یہ عدل اس لیے قائم کرنا چاہتا ہے کہ اگر کوئی جابرانہ اور ظالمانہ(یا جدید اصطلاح میں استحصالی) نظام رائج ہو جائے تو اس کے نتیجے میں آبادی کی ایک عظیم اکثریت بالکل حیوانوں کی سطح پر زندگی بسر کرنا شروع کر دیتی ہے اور اس کے لیے کسی اعلیٰ سوچ‘ فکر یا خیال کا امکان ہی باقی نہیں رہتا‘ اور اکثریت کو مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ کولہو کے بیل اور باربر داری کے اونٹ کی مانند اپنی دو وقت کی روٹی کے لیے جان گسل محنت میں صبح سے شام تک مصروف رہے ‘تو کہاں اللہ سے محبت کرنا ‘اُس کو چاہنا‘ اُس سے لو لگا کر بیٹھنا یا کسی اعلیٰ فکر کی طرف متوجہ ہونا! (۱) گویا اب انسانوں کے لیے اس مقصد کو پورا کرنا ممکن ہی نہیں رہتا کہ جس کے لیے ان کی تخلیق ہوئی تھی. بفحوائے الفاظِ قرآنی: وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذاریات) کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے.
لہٰذا اسلام یہ چاہتا ہے کہ نظامِ عدل و قسط قائم ہو تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں (۱) ؏ ’’تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے!‘‘ کو موقع حاصل ہو کہ اللہ کی معرفت حاصل کریں‘ اُس سے محبت کریں اور اُس سے لو لگائیں.
ان دو مقدمات کے بعد اب میں اصل موضوع کی طرف آتا ہوں.