اسلام کے دو معاشی نظام

حضرات! اسلام نے معاشی اور اقتصادی معاملات میں عدل و قسط کا جو مقام متعین کیا ہے اور جس میں اُس نے مساوات اور آزادی ایسی دونوں اعلیٰ اقدار کو خوبصورتی سے سمویا ہے وہ نظام کیا ہے؟ (۱میں اس کی طرف آتے ہوئے ایک بات کہنا چاہتا ہوں جو شاید اکثر لوگوں کو چونکا دے اور یہی میں چاہتا ہوں کہ ذہن بیدار ہو جائیں. وہ یہ کہ اسلام کا معاشی نظام ایک نہیں دو ہیں. دونوں اپنی اپنی جگہ از ابتدا تا انتہا مکمل ہیں. دونوں کا اپنا ایک فلسفہ ہے‘ دونوں کا ایک نظریہ ملکیت ہے‘ نظریہ ٔحقوق‘ نظریہ ٔقدرِ زائد (surplus value) ہے. یہ تمام چیزیں وہ ہیں کہ جو کسی بھی معاشی نظام میں بنیادی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہیں ‘اور یہ سب چیزیں ان دونوں میں بالکل جدا جدا ہیں. کوئی چاہے تو یوں کہہ لے کہ یہ دونوں ایک ہی نظام کے دو رُخ ہیں. لیکن بہر حال ان کے علیحدہ علیحدہ وجود سے انکار ممکن نہیں. یہ دونوں نظام باہم ایک دوسرے سے مربوط (inter-connected) بھی ہیں ‘ بہت حد تک ایک دوسرے پر منحصر (interdependent) بھی‘ اور اسلام کی برکات اور اس کے ثمرات کا کامل ظہور ان دونوں کے اجتماع اور اتصال ہی سے ہو سکتا ہے.

اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر ان دونوں میں سے ایک پہلو نگاہوں سے اوجھل ہوجائے اور توجہ صرف ایک ہی پر مرتکز ہو جائے تو اس سے جو تصویر سامنے آئے گی وہ اصل حقیقت سے بہت دُور ہو گی. ان میں سے ایک اسلام کا رُوحانی و اخلاقی نظام ہے اور دُوسرا قانونی و فقہی نظام. ان دونوں کے تقاضے بسا اوقات مختلف ہی نہیں متضاد ہوتے ہیں. تاہم ان دونوں کے 
(۱) ایک اہم بات یہ پیش نظر رہے کہ قرآن و حدیث میں نظام اسلامی یا نظامِ مصطفی کی اصطلاح ہمیں نہیں ملتی. اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے اور وہ یہ کہ نظام کوئی جامد شے نہیں بلکہ ہر دور کی علمی اور معاشرتی سطح کے مطابق نظام وجود میں آتا ہے. اس سلسلے میں اسلام کی رہنمائی ’’ہدایات‘‘ اور ’’حدود‘‘ کی صورت میں ہے. اسلام نے ’’حلال اور حرام‘‘ کی کچھ حدود متعین کی ہیں جن کی جمع و تدوین سے ’’نظام‘‘ وجود میں آتا ہے. امتزاج سے اسلام کا کامل نظام وجود میں آتا ہے. آپ چاہیں تو ان دونوں پہلوؤں کو ’’دعویٰ‘‘(thesis) اور ’’جوابِ دعویٰ‘‘ (anti-thesis) سے تعبیر فرمائیں اور ان دونوں کے امتزاج کو synthesis قرار دے لیں. ایک چھوٹی اور سادہ سی مثال سے بات واضح ہو جائے گی. کوئی شخص آپ کو ایک تھپڑ مار دے تو اگر آپ بالکل عاجز و کمزور ہیں تو اس صورت میں’’قہر درویش بر جانِ درویش‘‘ کے سوا اور کوئی صورت قابل عمل ہے ہی نہیں. اس کے برعکس اگر آپ بدلہ لینے پر قادر ہیں تو آپ کے سامنے دو راستے کھلے ہیں: ایک یہ کہ آپ بدلہ لے لیں اور دوسرے یہ کہ آپ معاف کر دیں. اس صورت میں ایک جانب اسلام کا قانونی اور فقہی نظام بدلے اور قصاص کی حوصلہ افزائی کرتا ہے. چنانچہ قرآن حکیم فرماتا ہے: وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾ (البقرۃ) لیکن دوسری طرف اسلام کا اخلاقی اور روحانی نظام ہے جو عفوودر گزر کی تلقین کرتا ہے. یعنی اگر معاف کر دو تو یہ تقویٰ اور خدا ترسی سے قریب تر ہے. چنانچہ شوق اور رغبت دلانے کے انداز میں فرمایا جاتا ہے: وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ (آل عمران: ۱۳۴یعنی وہ لوگ جو غصہ کو پی جائیں اور لوگوں کو معاف کر دیا کریں. دیکھ لیجیے کہ عفوو قصاص ایک دوسرے کی بالکل ضد ہیں‘ لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ انسانی معاشرہ ان دونوں میں سے صرف ایک پر استوار ہو سکتا ہے. دونوں اپنے اپنے مقام پر لازم و ناگزیر ہیں اور حسن معاشرت ان دونوں کے امتزاج ہی سے وجود میں آتا ہے. 

اس پر قیاس کر کے سمجھ لیجیے کہ اسلام کے معاشی نظام کے بھی دو پہلو ہیں. چنانچہ ایک جانب قانونی اور فقہی نظامِ معیشت ہے جس کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ ایک نوع کی محدود سرمایہ داری 
(Controlled Capitalism) ہے‘ اس لیے کہ اس میں انفرادی سرمایہ کاری کی اجازت موجود ہے. اگرچہ اسے’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ بننے سے بعض تحدیدی اقدامات نے روک دیا ہے. دُوسری طرف اسلام کا روحانی و اخلاقی نظامِ معیشت ہے جس کے بارے میں میں پورے انشراحِ صدر سے عرض کرتا ہوں کہ وہ ایک نہایت اعلیٰ قسم کی روحانی اشتراکیت (Spiritual Socialism) ہے اور ایک ایسا کامل سوشلزم ہے کہ اس کے آگے کا تصور بھی ممکن نہیں. اس لیے کہ سوشلزم یا کمیونزم میں تو پھر بھی انسانی ملکیت کا اثبات موجود ہے‘ اگرچہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی‘ لیکن اسلام اپنی اخلاقی و روحانی اور صحیح تر الفاظ میں’’ایمانی تعلیم‘‘ کی رُو سے انسانی ملکیت کی کلی نفی کرتا ہے. چنانچہ قرآن حکیم میں بار بار یہ الفاظ آتے ہیں : لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ یعنی آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس سب کا مالک صرف اللہ ہے. انسان کسی اور شے کا مالک تو کیا ہو گا ‘خواہ وہ زمین ہو‘ مکان ہو‘ ساز و سامان ہو‘ روپیہ پیسہ ہو‘ وہ تو خود اپنا اور اپنے وجود کا مالک بھی نہیں. اُس کے ہاتھ پاؤں‘ اَعضاء و جوارح اور جسم و جان اور اس کی کل توانائیاں سب اللہ کی ملکیت ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا امین ہوں. بقول شیخ سعدیؒ ؎

ایں امانت چند روزہ نزدِ ماست
در حقیقت مالک ہر شے خدا ست!
یا بقول علامہ اقبال مرحوم
رزقِ خود را از زمیں بردن رواست
ایں متاعِ بندہ و ملک خدا ست 

اس اعتبار سے بھی ہمارے ہاں بڑی کنفیوژن پائی جاتی ہے. سوشلسٹ ذہن رکھنے والے اہل قلم ایسی آیات اور احادیث کو اکٹھا کر کے ہر شے کی ملکیت کی کامل نفی کرتے چلے ہیں اور ضرورت سے زائد اپنے پاس رکھنے کی بھی‘ کہ جب قُلِ الۡعَفۡوَؕ (۱فرما دیا گیا تو زائد چیز جبراً بھی وصول کر لی جائے گی. اس طرح وہ ایک کامل اسلامی سوشلزم کا نقشہ پیش کرتے ہیں‘ جب کہ وہ دوسرے پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں. حالانکہ قانونِ وراثت بھی اسی قرآن میں موجود ہے‘ اور حضور اکرم  نے جو نظام برپا کیا تھا اس میں کہیں جبری مساوات دکھائی نہیں دیتی‘ بلکہ اس کے برعکس آزاد معیشت کے مواقع دیے گئے تھے کہ محنت کرو اور جائز ذرائع سے کماؤ ‘اور ان ذرائع سے تم جو کچھ کماؤ گے اس پر تمہارا حق تصرف(جو بہت قریب ہو جاتا ہے حق ملکیت کے) یہاں تک تسلیم کیا جائے گا کہ اس کو وراثتاً منتقل بھی کیا جا سکے. دوسری طرف ہمارے ہاں بعض مفکرین اور اصحابِ قلم نے صرف اس قانونی نظام کو اتنا نمایاں کیا ہے کہ (۱) یعنی جتنا ضرورت سے زائد ہے اللہ کی راہ میں دے ڈالو . (البقرۃ:۲۱۹دوسرا پہلو دب گیا ہے‘ یعنی قُلِ الۡعَفۡوَؕ کی آیت ان کی تقریر و تحریر میں نہیں آتی. 

یاد رہے کہ یہ کنفیوژن(الجھن) پورے خلوص کے ساتھ محض غلط فہمی کی بنیاد پر بھی ہو سکتی ہے. اس وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ غلط فہمی ہمارے دورِ اوّل یعنی خلافت راشدہ کے دوران بھی پیدا ہو گئی تھی‘ مثلاً حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے غلبہ ٔزہد کے باعث یہ رائے قائم کی کہ ضرورت سے زائد اشیائے صرف اور کسی بھی مقدار میں سونا اور چاندی اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں. آپؓ نے آیۂ کنز 
(۱کو بالکل اس کے ظاہری الفاظ پر محمول کیا. خلافت راشدہ کے اس نظام میں جس پر تمام امت جمع تھی اس رائے کو ایک انتہائی موقف قرار دیا گیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں انہیں مدینہ منورہ سے باہر چلے جانے کی ہدایت بھی کی گئی. ایک بیابان میں انہوں نے جھونپڑا ڈالا اور وہیں ان کا انتقال ہوا. (۲یہ نظامِ اسلامی کا وہ رُوحانی پہلو ہے جس کی طرف اسلام انسانوں کو ترغیب دینا چاہتا ہے. یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے انسان اپنے تزکیہ اور رُوحانی مراتب کے حصول کے لیے آگے بڑھ سکتا ہے. اسلام کے ساتھ ایمان بھی ہے‘ اور اس سے اوپر احسان کا درجہ بھی ہے‘ (۳مگر اس کو قانونی درجہ دے دینا ایک مغالطہ تھا جو حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو پورے خلوص اور اخلاص کے ساتھ لا حق ہوا.لیکن آج یہ مغالطہ جان بوجھ کر اور بدنیتی کے ساتھ دیا جا رہا ہے ‘کیونکہ آج تو خلافت راشدہ کا نظام پورے کا پورا ہمارے سامنے موجود ہے اور اُمت کے اس اجتماعی فیصلے کو نظر انداز کرنا بغیر بدنیتی کے ممکن ہی نہیں.

(۱) سورۃ التوبۃ:۳۴
(۲) حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے احساس کا یہ عالم تھا کہ وفات کے وقت آپؓ نے زوجہ محترمہ سے فرمایا کہ تم نے یہ کیا سانپ اور بچھو اپنے گرد جمع کر لیے ہیں! تو انہوں نے کہا کہ کہاں ہیں وہ سانپ اور بچھو؟ تو آپ نے معمولی چیزوں جیسے توا‘ چمٹا اور دیگچی کا حوالہ دے کر کہا یہ نہیں پڑے ہوئے میرے گرد؟ حضرت ابوذر ؓ کے اسی غلبہ ٔزہد کی وجہ سے آنحضور نے فرمایا تھا کہ تم میں سے جو چاہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زہد اپنی آنکھوں سے دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ میرے ساتھی ابوذر کو دیکھ لے.
(۳) حدیث جبریل و سورۃ المائدۃ:۹۳