اس روحانی معاشی نظام کے چار اصول ذہن میں پھر مرتب کر لیجیے. 

(۱) انسانی ملکیت کی کلی نفی.
(۲) انسان کو اس دنیا میں جو کچھ ملتا ہے اس کی کمائی نہیں اللہ کا فضل ہے. گو دکان پر وہ بیٹھا ہے‘ کھیت میں ہل اُس نے چلایا ہے‘ محنت اُس نے کی ہے‘ لیکن ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ ملا ہے اس کو اللہ کا عطیہ اور اُس کا فضل سمجھے. اگر اسے اپنی محنت کا ثمرہ سمجھو گے تو اس پر اپنا حق ملکیت جتاؤ گے‘ لیکن اگر اللہ کا فضل سمجھو گے تو اس میں سے اپنا حق اسی قدر سمجھو گے جس قدر اللہ نے معین کیا ہے.
(۳) انسان کا جائز حق کیا ہے؟ صرف اس کی ضروریات کے بقدر. ان کو بھی بعض احادیث میں متعین کر دیا گیا ہے. 

ا : اگر دو وقت کھانے کے لیے مل گیا ہے.
ب: سر چھپانے کے لیے اگر کوئی چھت موجود ہے.
ج: پہننے کے لیے اگر دو جوڑے کپڑوں کے موجود ہیں.
د : اور اپنے کردار‘ اخلاق اور عفت کی حفاظت کے لیے اگر ایک بیوی مل گئی ہے.

تو تمہارا بنیادی حق تمہیں مل گیا ‘اور اس سے زائد جو کچھ ہے وہ تمہارا نہیں دوسروں کا حق ہے. اس کو پہنچا دو اُن تک کہ جن کے پاس نہیں ہے اور پھر سمجھو کہ تم غریبوں کی اس امانت کے بوجھ سے سبکدوش ہو گئے کہ جو امتحان کی غرض سے تمہارے مال میں شامل کر دی گئی تھی‘ اور یہی ہے در حقیقت وہ مقام جہاں تک 
’’قُلِ الۡعَفۡوَؕ ‘‘ کا سارا فلسفہ پہنچانا چاہتا ہے کہ تمہارے پاس جو بھی ’’قدرِ زائد‘ ‘ہے اس کو مزید کمائی کا ذریعہ نہ بناؤ. ضرورت پوری ہو گئی تو تمہارا حق مکمل ہو گیا‘ اب جو زائد تمہارے پاس ہے وہ خواہ قانوناً تمہارا ہے مگر حقیقتاً تمہارا نہیں ہے.

گویا یہ ایک مکمل نظام ہے‘ اس میں ملکیت اور قدرِ زائد اور یہاں تک کہ 
اس قدرِ زائد کا مصرف بھی طے شدہ ہے. اس سلسلے میں سورۃ الروم کی ایک آیہ ٔمبارکہ ملا حظہ ہو‘ جس میں ربا(سود) کا ذکر بمقابلہ صدقات آیا ہے. فرمایا: 

وَ مَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ رِّبًا لِّیَرۡبُوَا۠ فِیۡۤ اَمۡوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرۡبُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ ۚ وَ مَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ زَکٰوۃٍ تُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ ﴿۳۹﴾ 
(الروم) 
’’اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو اللہ کے نزدیک اس میں افزائش نہیں ہوتی‘ اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو اور اس سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی طلب کرتے ہو تو (وہ موجب ِبرکت ہے اور) ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو) دوچند‘ سہ چند کرنے والے ہیں.‘‘

گویا دین کی رُوحانی تعلیم کے اعتبار سے ربا در حقیقت صدقہ اور خیرات کے بالمقابل ہے. مثال کے طور پر ایک شخص ملازم ہے ‘اس کو تنخواہ ملتی ہے جس سے اس کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں اور کچھ سرمایہ اُس کے پاس جمع ہو گیا ہے. اس فاضل سرمایہ کے دو مصرف ہیں‘ ایک تو یہ کہ اس کو کسی اور کے کاروبار میں لگا کر اس کی محنت کے بل بوتے پر اس سرمایہ کو بڑھائے(وہ خود تو محنت نہیں کرے گا کیونکہ وہ تو کسی اور جگہ ملازم ہے) یہ بھی در حقیقت اس رُوحانی سطح پر رباہی قرار پائے گا ‘کیونکہ اس روحانی اور اخلاقی سطح پر اس فاضل سرمائے کا مصرف صرف ایک ہے کہ اس کا مالک محتاجوں اور غریبوں کو بنا دیا جائے. یہ ان کو دے دیا جائے کہ جو محروم ہیں یا جن کے پاس کاروبارکے لیے بنیادی سرمایہ موجود نہیں ہے. گویا فاضل سرمائے کو مزید آمدنی کا ذریعہ بنانا قانونی سطح پر جائز ہے ‘مگر روحانی اور اخلاقی تعلیم میں یہ چیزممنوعات کی فہرست میں داخل ہے.