حضرات! جیسا کہ عرض کیا ہے ‘اسلام کا قانونی اور فقہی نظامِ معیشت ایک طرح کے ’’کنٹرولڈ کیپٹلزم ‘‘سے مشابہ ہے. اس میں تمام فطری تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے. اس کی رُو سے انسان کو اپنے مال پر حق تصرف حاصل ہے. عام حالات میں صرف زکوٰۃ کی حد تک اس سے جبراً وصول کیا جائے گا‘(۱باقی اگر وہ شوق سے چاہے تو اللہ کے راستے میں خرچ کرے اور خیر کمائے. لیکن اس کو اس بات کا قانونی حق حاصل رہے گا کہ اپنی ضرورت سے زائد مال کو کاروبار میں لگائے اور اس کو وراثتاً منتقل بھی کرے. یہ تمام چیزیںوہ ہیں کہ جو کسی سرمایہ دارانہ نظام میں (۱) اس میں خاص حالات میں استثناء ممکن ہے ‘جس کی تفصیل بعد میں آئے گی. پائی جاتی ہیں. لیکن یہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اسلام نے اس قانونی نظام کو بھی ایک حد کے اندر رکھا ہے تاکہ یہ آزاد سرمایہ کاری‘ سرمایہ داری کی لعنت کی صورت اختیار کر کے انسانی معاشرے پر مسلط نہ ہونے پائے. اس ضمن میں اسلام نے جو عملی تدابیر اختیار کی ہیں ان کو ان کے فلسفیانہ پس منظر سمیت دو حصوں میں سمجھا جا سکتا ہے. 

الف :یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جب آزادی (خواہ وہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو) دی جائے گی تو کچھ اُونچ نیچ لازماً پیدا ہو گی. دوڑ لگے گی تو یقینا کچھ لوگ آگے نکل جائیں گے اور کچھ پیچھے رہ جائیں گے. آزادی کو بر قرار رکھتے ہوئے اس فرق و تفاوت سے بچنا ممکن نہیں. آزادی خواہ کتنی ہی محدود کیوں نہ ہو‘ جب بھی آئے گی اس بات کا امکان بہرحال موجود رہے گا. چنانچہ اس کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ضروری ہے. لیکن اسلام کے قانونی نظامِ معیشت میں اس بات کا اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ معاشرے میں مالی فرق و تفاوت کو کم کیا جائے. اس کے لیے اسلام نے زکوٰۃ کا نظام قائم کیا ہے. اسلام نے ایک حد قائم کی ہے کہ جو لوگ اس سے اُدھر نکل جائیں ’’دینے والے‘‘یا 
donors ہیں اور اِدھر والے ’’لینے والے‘‘ یا recipients ہیں. اُن کو haves شمار کر لیجیے اور اِن کو have-nots دین کی اصطلاح میں وہ علی الترتیب ’’صاحب ِنصاب ‘‘اور ’’مسکین‘‘ کہلاتے ہیں. یاد رہے کہ یہ تقسیم بھی الل ٹپ(arbitrary) نہیں ہے. اسے آپ اپنے اختیار سے آگے پیچھے نہیں کر سکتے. یہ ایک لائن ہے جو کھینچی جا چکی ہے‘ جس کے پاس اتنے اونٹ ہیں اِدھر اور جس کے پاس نہیں ہیں اُدھر. اگر اس قدر سونا ہے تو اِدھر اور نہیں ہے تو اُدھر. اور اسی طرح جس کے پاس اتنی چاندی ہے اِدھر اور جس کے پاس نہیں ہے اُدھر. اس تقسیم کے بعد وہ نظامِ زکوٰۃ قائم کیا گیاکہ جس کے بارے میں نبی اکرم  نے واضح فرمایا: تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ (متفق علیہ) ’’ان کے اغنیاء سے مال وصول کیا جائے گا اور ان کے فقراء کو دے دیا جائے گا‘‘ . تاکہ معاشرے میں پیدا ہونے والی نا ہمواری کا سد باب ہو. اور ایسا نہ ہو کہ کچھ لوگ بھوکے اور ننگے رہ جائیں اور ان کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری نہ ہوں ‘جبکہ کچھ لوگ اتنا سرمایہ جمع کر لیں کہ کیفیت وہ ہو جائے جس کے بارے میں سورۃ الحشر میں بایں الفاظ متنبہ فرمایا گیا ہے : کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ (آیت ۷کہ سرمایہ صرف تم میں سے صاحب ثروت لوگوں کے درمیان ہی گردش میں نہ رہ جائے. جس کی ایک سادہ مثال ایک کروڑ پتی کی بیٹی کا لاکھوں روپے کا جہیز لے کر دوسرے کروڑ پتی کے گھر جانا اور کسی امیر کے بیٹے کی سالگرہ پر اُمراء کا لاکھوں روپے کے تحائف کا انبار لگانا ہے. اس میں بظاہر سرمایہ گھومتا ہے مگر صرف اغنیاء کے دائرے میں. یہ معاشی چکی صرف وہیں گھوم رہی ہے اور اس کا آٹا چھلنی سے چھن کر نچلے طبقوں تک نہیں پہنچ رہا. اسلام یہ چاہتا ہے کہ کسی معاشرے میں یا کسی ملک میں جو بھی ذرائع پیدا وار اللہ نے تخلیق فرمائے ہیں ان سے جو کچھ بھی حاصل ہو‘ اس کی ایک منصفانہ تقسیم ہو. معاشرے کے تمام افراد پیداوارِ دولت سے متمتع ہوں اور گردشِ دولت صرف بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ کا مصداق نہ بنے. 

میں جس مفہوم کی ادائیگی کے لیے ’’کنٹرولڈکیپٹلزم‘‘ کی اصطلاح استعمال کر رہا ہوں آج کل اس مفہوم کو 
internally managed capitalism کے الفاظ سے ادا کیا جا رہا ہے. سرمایہ دار بھی اب اس بات کو جان چکے ہیں کہ ننگے اور عریاں کیپیٹلزم کا کوئی مستقبل نہیں‘ وہ تباہی اور بربادی کی طرف جا رہا ہے. بقول علامہ اقبال مرحوم ؎

دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے 
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

لہٰذا خود کیپٹلزم اپنے اندر کچھ نمایاں تبدیلیاں کر رہا ہے. اس کی بہت نمایاں مثال آپ کو برٹش سسٹم میں ملے گی. مثلاً جو لوگ کام پر نہیں ہیں ان کو نان ایمپلائمنٹ الاؤنس دیا جائے یا ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت ریاست اپنے ذمے لے. چنانچہ آزاد معیشت بھی ہے کہ جو آگے نکل سکتے ہیں نکلیں‘ لیکن ہر شہری کے لیے اس کی بنیادی ضروریات کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے. غور کیجیے کہ اسلام کے نظام میں یہ چیزیں چودہ سو سال پہلے آ چکی تھیں. اس ذمہ داری کا اندازہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس تاریخی جملے سے لگایا جا سکتا ہے جس میں آپؓ نے فرمایا کہ ’’ اگر دجلہ اور فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو عمر سے اس کے بارے میں بھی باز پرس ہو گی‘‘. (انسان تو بہر حال اشرف المخلوقات ہے اس کا حق جانوروں سے مقدم ہے.) اسلام آزادی دیتا ہے کہ کماؤ اور کھاؤ‘ جائز حدود کے اندر اندر خوب محنت کرو. کوئی آگے بڑھ جائے اور کوئی پیچھے. لیکن یہ معاملہ ایک حد کے اندر اندر رہے اور جو پیچھے رہ جائیں ان کی بنیادی ضروریات کی ضمانت کے لیے زکوٰۃ اور عشر کا نظام قائم کیا گیا. کوئی چاہے تو اس کو اجتماعی انشورنس کا نام دے لے. اگرچہ اس میں ایک فرق ہے. انشورنس کسی بھی نوعیت کی ہو اس کو انسان اپنی کمائی میں سے خرچ کر کے کماتا ہے جبکہ زکوٰۃ اور عشر کے ذریعے سے جو انشورنس اسلام فراہم کرتا ہے اس میں مستفید (beneficiary) کا کوئی contribution نہیں ہے‘ اس کے ادا کرنے والے صرف اغنیاء ہیں. 

ب : اسلام نے مساکین اور صاحب نصاب لوگوں کے مابین فرق و تفاوت کو کم کرنے کے لیے صرف زکوٰۃ کے نظام پر ہی اکتفا نہیں کیا‘ بلکہ اس آزاد سرمایہ کاری پرحلال و حرام کی وہ حدود و قیود قائم کی ہیں کہ جن کی موجودگی میں واقعتا سرمایہ کاری ’’سرمایہ داری‘‘ نہیں بن سکتی. ذرا نگاہ ڈالیے ان اقدامات پر اور قرآن مجید کی حکمت بالغہ پر عش عش کیجیے کہ بغیر معاشیات کا کوئی عنوان قائم کیے کیسی بنیادی اور اہم ہدایات دی ہیں. 

دُنیا میں ہمیشہ سرمایہ اور محنت کے امتزاج ہی سے معاشی نتیجہ نکلتا ہے. ایک چھوٹا سا خوانچہ بھی اگر آپ لگائیں تو آپ کو سودوسو روپے کا مال لگا کر بیٹھنا ہو گا. یہی حال بڑی دکان کا ہے. یہاں تک کہ کار خانہ اور مل بھی جو کچھ پیدا کرتے ہیں سرمایہ اور محنت کے امتزاج ہی سے پیدا کرتے ہیں. گو جدید ماہرین اقتصادیات خصوصاً سوشلسٹ مصنفین نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ سرمایہ بھی محنت ہی کی پیداوار ہے ‘لیکن یہ بحث در حقیقت مرغی اور انڈے کی نوعیت کی ہے کہ ان میں سے کون سی شے پہلے ہے. 
بہر حال یہ امر مسلم ہے کہ اسلام کے نظامِ معیشت میں زیادہ زور محنت پر ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ تحفظ دیا گیا ہے‘ جب کہ سرمائے کی حیثیت 
کم سے کم رکھی گئی ہے اور اس کے صرف اپنی ذاتی حیثیت میں earning agent ہونے کو کم سے کم تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی بد ترین صورت کہ : 

(۱) سرمایہ صرف سرمایہ ہونے کی حیثیت سے کمائی کا حق دار ہو.
(۲) وہ اپنا تحفظ بھی چاہے.
(۳) گھاٹے میں شریک نہ ہو.
(۴) اور نفع میں بھی ایک معین شرح لے رہا ہو. 

یہ چار عناصر سود یا ربا کے جزوِ لاینفک ہیں ‘جسے اسلام نے حرامِ مطلق قرار دیا ہے. اس لعنت کو جس طرح اسلام نے اپنے نظامِ معیشت میں ختم کیا ہے اور جس طرح اس کی جڑ کاٹی ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی. قرآن مجید میں شراب اور بد کاری کے ارتکاب جیسے جرائم پر بھی وہ انداز اختیار نہیں فرمایا گیاجو سود پر کیا گیا ہے. کوئی شخص اگر جذبات کی رَو میں بہہ کر کوئی غلطی کر بیٹھا ہے تو اس پر حد تو جاری کی جائے گی ‘لیکن قرآن مجید میں اللہ کا جو غضب اور غصہ سودی کاروبار کرنے والوں پر بھڑکا ہے کسی اور پر نہیں بھڑکا. فرمایا کہ اگر تم سود کے لین دین سے باز نہیں آتے 
فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ (البقرۃ:۲۷۹تو سن لو کہ اللہ اور اس کے رسول کا تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے. اور حدیث میں تو واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے سب سے بڑے رمز شناس حضرت محمد رسول اللہ  نے جو انداز اختیار کیا ہے وہ ہماری ذہنی سطح سے قریب تر ہے . آپ نے ارشاد فرمایا: اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْبًا اَیْسَرُھَا اَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہٗ (رواہ ابن ماجہ والبیہقی) ’’ربا (سود) کے ستر اجزاء ہیں (یہ گناہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے ستر حصے کیے جا سکتے ہیں)اور ان میں ہلکا ترین بھی اس کے مساوی ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زناکرے.‘‘ 

یہ انداز بظاہر کھلتا ہے کہ آپ نے یہ اندازِ تعبیر کیوں اختیار فرمایا‘ لیکن جب میں نے غور کیا تو احساس ہوا کہ واقعہ یہ ہے کہ انسان کو بہت سے گناہوں سے 
طبعی نفرت ہے. خصوصاً ہمارے ہاں ایک نام نہاد ’’دیندار‘‘ مگر اصلاً ’’کاروباری‘‘ طبقہ ہے. ان لوگوں کو نماز روزے سے بڑی دلچسپی ہے. حج کرنا تو گویا ان کا محبوب مشغلہ ہے‘ اور دارالعلوم اور مساجد بظاہر قائم ہی انہی کے بل بوتے پر ہیں. شراب سے ان کو بڑی نفرت ہے اور اگر اس پر زنا کا اضافہ ہو جائے تو گویا قیامت آ گئی. مگر سود سے ان کو کوئی نفرت نہیں اور وہ بڑے ذوق و شوق سے سودی کاروبار کرتے ہیں. لہٰذا نبی اکرم نے اس کو میزانِ عدل میں تول کر ایک نسبت و تناسب قائم فرمایا ہے اور واضح فرما دیا ہے کہ اس کی اصل حیثیت کیا ہے ‘یعنی معاشرتی برائی ہونے کے اعتبار سے یہ زنا کی بد ترین صورت (یعنی ماں کے ساتھ زنا) سے بھی ستر گنا زیادہ بھیانک ہے. 

بالکل اسی نوعیت کا ہے وہ انداز جو سورۃ الحجرات میں غیبت کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے کہ جس طرح ایک مردہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا‘ جیسے چاہو نوچ ڈالو‘ اسی طرح تمہارا جو بھائی موجود نہیں وہ بھی اپنی مدافعت سے قاصر ہے ‘جیسے چاہو اس کی برائی کر لو. 

فی الجملہ ہمارے نظامِ شریعت میں اور احکامِ دین کے اس پورے سلسلے میں جو بدترین برائی قرار دی گئی ہے وہ سود ہے. اصل میں یہی وہ چیز ہے جس پر سرمایہ داریپروان چڑھتی ہے اور ہمارے دین میں اس کی جڑ کاٹ دی گئی ہے.