سرمایہ جب اپنے بل بوتے پر مارکیٹ کو کنٹرول کرتا ہے اور مارکیٹ میں اتار چڑھائو پیدا کرتا ہے‘ مثلاً ایک شخص سرمایہ کی بنیاد پر کبھی ایک دم بہت سا مال خرید کر قیمتیں بڑھا دیتا ہے اور مارکیٹ کو اونچا لے جاتا ہے اور کبھی ایک دم بہت سا مال ریلیز (release) کرکے مارکیٹ کے بھائو گرا دیتا ہے تو یہ سرمائے کا کھیل بلکہ ننگا ناچ ہے. مارکیٹ میں اس کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان کو دین اسلام نے حرام مطلق قرار دیا ہے. مثلاً: 

(۱)ذخیرہ اندوزی(Hoarding )

اس سلسلے میں سب سے زیادہ زور خوردنی اشیاء (eatables) پر دیا گیا ہے ‘ کیونکہ یہ انسان کی سب سے زیادہ بنیادی ضرورت ہیں. اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے باقی اشیائے ضرورت کو بھی. آنحضرت  نے ذخیرہ اندوزی کے بارے میں ارشاد فرمایا: 

’’جس نے کھانے پینے کی چیز چالیس دن تک روکے رکھی (بازار میں مانگ ہے مگر وہ اس کو فراہم نہیں کر رہا‘ چاہتا ہے کہ قیمتیں بڑھ جائیں) تو وہ اللہ سے بری ہو گیا اور اللہ اُس سے بری ہو گیا. اللہ کا کوئی تعلق اس سے نہیں اور اس کا کوئی تعلق اللہ سے نہیں.‘‘ 

(۲) سٹہ (Speculation )

کچھ لوگوں کی ایک معاشی حیثیت متعین ہے اور وہ سٹہ کھیلتے ہیں اور بیٹھے بٹھائے مال کے خرید و فروخت کا چکر چلاتے رہتے ہیں ‘حالاں کہ وہ نہ بالفعل مال خریدتے ہیں اور نہ بیچتے ہیں اور نتیجتاًمارکیٹ میں آنے سے قبل ہی مال پر منافع کی تہیں چڑھتی چلی جاتی ہیں. یہ تمام پیشگی فرضی سودے سرمایہ داروں کا ایک کھیل ہیں‘ اس کے سوا کچھ نہیں. ہمارے دین میں جو مال موجود نہ ہو اس کا سودا نہیں ہو سکتا سوائے ایک استثنائی صورت کے جسے ’’بیعِ سَلَم‘‘ کہا جاتا ہے. 

(۳)انشورنس(Insurance )

میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ مختلف چیزوں کی حقیقت کو سمجھیں. بقول علامہ اقبال ؎

اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!

بعض چیزیں دیکھنے میں بہت خوش نما نظر آتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ بھی اسی نوعیت کی ہیں کہ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے. انہی میں ایک انشورنس ہے. ہم کسی درجے میں یہ تو جانتے ہیں کہ ہمارے دین میں یہ شے حرام ہے. اس کی حرمت کی حکمت سمجھئے کہ اس حرمت سے کس طرح سرمایہ کاری (جس کی اسلام میں اجازت ہے) گو سرمایہ داری بننے سے روکا گیا ہے. 
انشورنس کیا ہے؟ 

اوّل تو اس میں چانس والا جوئے کا پہلو ہے ‘لیکن اس سے پہلے اس کی اصلیت ہی سرمایہ دارانہ ہے. اصل انشورنس تو وہ ہے جو بڑی بڑی فیکٹریوں اور کارخانوں کی ہوتی ہے. 
(۱ایک سرمایہ دار نے دس لاکھ روپے کے سرمائے سے ایک کارخانہ بنایا‘ فرض کیجیے وہ ایک ماچس کی فیکٹری لگاتا ہے. اس کا یہ کار خانہ آفاتِ سماویہ کی زد میں ہے. ہو سکتا ہے کوئی سیلاب آ جائے یا کسی اتفاقی حادثہ میں آگ لگ جائے اور سارا کارخانہ جل کر راکھ ہو جائے‘ لیکن وہ سرمایہ دار اپنے سرمائے کا تحفظ چاہتا ہے انشورنس کے ذریعے سے. لیکن وہ یہ تحفظ بھی اپنی جیب سے نہیں کرتا. اس کے لیے وہ جو پریمیم(premium ) ادا کرتا ہے اس کو اپنے اخراجات میں داخل کر کے دیا سلائی کی لاگت (cost) میں شامل کرتا ہے اور دیا سلائی کی ڈبیہ کی قیمت اگر ۲۵ پیسے ہے تو اس میں ایک پیسہ یا کم و پیش وہ سرمایہ دار صارف (consumer) سے اپنے سرمائے کے تحفظ کے لیے وصول کر رہا ہے. یہ ذہن میں رہے کہ قومی معیشت کے اعتبار سے تباہی ہوگئی‘ ملکی سطح پر دس لاکھ روپے کا نقصان تو ہو گیا لیکن وہ سرمایہ دار اس قومی نقصان سے لاتعلق رہنا چاہتا ہے. وہ صارف کی کاسٹ پر اپنے سرمائے کا تحفظ کرتا ہے اور اپنے مستقبل کا بھی. وہ یہ تحفظ عوام کی جیبوں پر بوجھ ڈال کر کرتا ہے. یہ ہے اصل حقیقت انشورنس کی. 

گویا یہ فی الحقیقت سرمایہ داروں کی ایک کو آپریٹو ہے‘ اس کے سوا کچھ نہیں. یہ صرف سرمایہ داروں کے سرمائے کا تحفظ ہے اور کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ کی جیتی جاگتی تصویر .یہ سرمایہ داری کی لعنت کو تقویت پہنچانے والی شے ہے‘ جس کی حرمت کا اسلام نے فیصلہ صادر فرما دیا ہے. (۱) لائف انشورنس کے حق میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے. اس میں سے جوئے کا پہلو نکال دیجیے تو وہ اتنی سخت چیز نہیں رہتی ‘لیکن حرمت کا پہلو بہرحال ہے. میں اس کا قائل ہوں.