اب تک تو میں نے وہ چیزیں بیان کی ہیں جو حرامِ قطعی ہیں. تھوڑا سا نیچے آئیے تو ہمارے دین میں ایک اور دائرہ ہے جس میں اسلام نے کچھ چیزوں کو یا تو حلال رکھا ہے یا یہ کہ ان کی حلت و حرمت میں اختلاف ہے ‘لیکن رُوحِ دین کے اعتبار سے نا پسندیدہ ہیں. ان سب کو میں ایک ہی گروپ میں لا رہا ہوں. 

ا: مضاربت 

ایک شخص محنت کر سکتا ہے ‘دکان چلا سکتا ہے‘ مگر اُس کے پاس سرمایہ نہیں ہے اور کسی دوسرے شخص کے پاس زائد سرمایہ موجود ہے. اب یہ دونوں مل کر کام کرتے ہیں‘ ایک کی محنت ہو گی دوسرے کا سرمایہ. اس صورت میں محنت اور سرمایہ کا امتزاج 
(۱وجود میں آئے گا اور اس کا نام مضاربت ہے. یہ دین میں جائز تو ہے مگر پسندیدہ نہیں‘ جیسے طلاق. (۲اگر کسی کے پاس سرمایہ ہی اتنا ہے کہ جس پر خود اُس کی معیشت کا دار و مدار چل سکتا ہے تو وہ خود دکان لگائے‘ محنت کرے اور رزقِ حلال کمائے. لیکن اگر کسی شخص کے پاس اپنی ضروریات کے لیے کوئی اور ذریعہ موجود ہے اور وہ فاضل سرمایہ اپنے ایسے بھائی کو دے رہا ہے جو سرمایہ نہ ہونے کے باعث کسی اور کے سرمائے پر کام کرنے پر مجبور ہے‘ لیکن یہ اُس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سرمائے کی بنیاد پر اُس کی محنت میں حصے دار بنتا ہے تو یہ جائز توہے ‘کیونکہ اگر کسی بھی درجے میں آزادی کو برقرار رکھنا ہے تو اس نظام میں یہ گنجائش رکھنا پڑے گی. لیکن اسلام اس کو بس مجبوراً جائز قرار دیتا ہے‘ جبکہ اس کے نزدیک پسندیدہ چیز وہی ہے جس کا ذکر اخلاقی نظامِ کے تحت ’’قُلِ الْعَفْوَ‘‘ کے حوالے سے گزر چکا ہے. لیکن اس میں بھی دیکھئے کہ اسلام نے کس مضاربت کو جائز قرار دیا ہے. ہمارے ہاں جو (۱) امتزاج کی ایک صورت مشارکت بھی ہے کہ دو آدمی مل کر کاروبار کرتے ہیں‘ دونوں سرمایہ بھی لگاتے ہیں اور دونوں محنت بھی کرتے ہیں ‘تو اس میں کوئی قباحت سرے سے ہے ہی نہیں. 

(۲) اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہِ الطَّلَاقُ (رواہ ابوداوٗد وابن ماجہ) 

’’جائز کاموں میں اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ شے طلاق ہے.‘‘

مضاربتیں ہوتی ہیں ان پر قیاس نہ کیجیے. لفظ مضاربت کے اشتراک سے یہ نہ سمجھ لیجیے کہ اس نام سے جو کچھ ہے وہ جائز ہے. اسلام جس مضاربت کو جائز قرار دیتا ہے اس میں محنت کو پورا پورا تحفظ دیا گیا ہے‘ جبکہ سرمائے کو کوئی تحفظ نہیں دیا گیا. اگر نفع ہو گا تو محنت کرنے والے کو اس میں سے حصہ ملے گا‘ لیکن اگر گھاٹا ہو گا تو اس کا کوئی بوجھ محنت کش پر نہیں پڑے گا. نقصان کا سارا بوجھ سرمایہ دار کو برداشت کرنا ہو گا. 

یہاں ایک اور بات بھی یاد رکھیے. قرآن مجید میں جہاں تجارت کا ذکر آتا ہے وہاں 
عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ (النسائ:۲۹(کہ وہ تجارت باہمی رضا مندی سے ہو)کی شرط عائد کی گئی ہے. اگر آپ کوئی شے خریدنے بازار گئے ہیں‘ آپ کو اس کا بھائو معلوم ہے ‘آپ قیمت دے کر چیز خرید لیں گے اور معاملہ رضا و رغبت کا ہو گا‘ لہٰذا وہاں یہ شرط پوری ہو جائے گی. لیکن کوئی ایسا معاملہ جس میں کوئی شخص بالکل مجبور ہو‘ گو قانونی طور پر تو رضا مندی ہو گئی‘ آپ کہیں گے کہ میں نے کب اس کو مجبور کیا تھا وہ خود میرے پاس آیا ہے کہ میرے پاس سرمایہ نہیں ہے تم مجھے سرمایہ دو‘ میں محنت کر لوں گا اور تمہیں اس میں سے حصہ دوں گا. کہنے کو تو رضا مندی ہو گئی‘ لیکن در حقیقت یہ مجبوری ہے ‘کیونکہ اس کے پاس اپنا سرمایہ نہیں. اگر ہو تو کوئی کب پسند کرتا ہے کہ کسی اور کو اپنی محنت کے حاصل میں شریک کرے. چنانچہ مجبوری کا پہلو اس مضاربت میں موجود ہے جس کی وجہ سے اگرچہ یہ حلال تو ہے مگر پسندیدہ نہیں ہے. 

ب: مزارعت 
اسی قبیل کی شے مزارعت ہے. ایک شخص کی زمین ہے اور کوئی دُوسرا اس پر محنت کر رہا ہے. اس مسئلہ میں فقہائے اُمت کے درمیان اختلاف ہے. حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک ہر قسم کی مزارعت حرام مطلق ہے. Absentee Landlordism کا ان کی رائے میں اسلام میں کوئی امکان سرے سے موجود نہیں. بعض دوسرے فقہاء نے ان احادیث پر غور کرنے کے بعد اس میں استحسان اور مصالح مرسلہ کے اصول کے تحت کچھ گنجائشیں نکالی ہیں ‘اور یہ بھی میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ اُس دَور کے خاص حالات میں ایک موجود الوقت نظام کو کلیۃً بدلنا ممکن نہ تھا‘ لہٰذا کچھ نا گزیر شرائط کے ساتھ ان کی گنجائش پیدا کی گئی تھی‘ ورنہ حضور اکرم نے تو مزارعت پر لفظ ربا کا اطلاق کیا ہے.آپ نے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کو دیکھاکہ وہ ایک کھیتی کو سینچ رہے ہیں‘ جبکہ آپؐ کے علم میں تھا کہ رافع کی اپنی کوئی زمین نہیں‘ لہٰذا آپ ؐ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی ہے؟حضرت رافع ؓ نے بتایا کہ کھیتی میری ہے‘ بیج میں نے ڈالا ہے اور محنت بھی میں نے کی ہے ‘جبکہ زمین بنی فلاں کی ہے‘ اور ہمارے مابین پیداوار نصف نصف تقسیم ہوگی. اس پر حضور نے فرمایا اَرْبَیْتُمَا یعنی تم نے رباکا معاملہ کیا‘ ایک سودی کاروبار کیا. اور فرمایا کہ زمین اس کے مالک کو لوٹا دو اور تمہارا جو خرچ اس پر آیا ہے وہ اس سے وصول کر لو (سنن ابی داؤد) .اس لیے کہ اس میں مالک کی محنت شامل نہیں ہو رہی ہے ‘وہ صرف زمین کی ملکیت کی بنیاد پر اپنے ایک بھائی کی گاڑھے پسینے کی کمائی میں سے حصہ وصول کرنا چاہتا ہے. 

ہمارے ہاں مزارعت کی جو شکلیں رائج ہیں ان میں پھر بھی مالک بیج اور بہت سی دوسری چیزوں میں شامل ہوتا ہے. یہ اس حرام کو حلال بنانے کے لیے کچھ اضافی شرائط عائد کی گئی ہیں‘ ورنہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ 
(۱کا فتویٰ آنکھیں کھول دینے کے قابل ہے. مجھے امام صاحب کی اس رائے سے کاملتاً اتفاق ہے.