خرید و فروخت کے مروّجہ طریقوں پر قدغنیں

جو مال موجود نہ ہو اس کے سودے کی جو شکل بھی ہو ‘وہ حرام ہے‘ مثلاً:

(۱) یہ بات قابل توجہ ہے کہ جب ہماری اکثریت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کی فضیلت بیان کرتی ہے تو ان کو امام اعظم اور سید الفقہاء قرار دیتی ہے اور ان کے بعض فتاویٰ کو درست ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے. مگر ’’میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ کے مصداق ایسے اہم معاملات پر ان کے فتوے کو سرے سے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی. (۱) ٹھیکے پر زمین دینا. مالک نے ایک وقفے کے لیے زمین کی قیمت وصول کر لی ہے. اب کاشت کار کو اس سے کوئی بچت ہوتی ہے یا نہیں‘ اس کو اس سے کوئی بحث نہیں. گویا یہ تو کھلی ہوئی سود کی صورت ہے‘ اس لیے یہ حرام ہے. 

(۲) باغ میں پھل آنے سے قبل اس کا سودا کرنا بھی نا جائز ہے. 

(۳) یہ تمام ایڈوانس بزنس 
(advance transactions) جو دنیا میں ہوتے ہیں ان کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے. سیدھی سادھی بیع وہ ہے کہ قیمت دو اور مال وصول کرو یا ایک ہاتھ سے چیز لو اور دوسرے ہاتھ سے دو. تبادلے کی صورت میں یہاں بھی کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانامقصود نہ ہو. ذخیرہ اندوزی یا کوئی اور مفاد پیش نظر نہ ہو. ایڈوانس بزنس کے اس طریقے کے باعث over trading ہوتی ہے. ایک شخص کے پاس پانچ لاکھ روپے ہیں ‘لیکن وہ پچاس ہزار روپیہ بیعانہ ادا کر کے پچاس لاکھ کے سودے کر لیتا ہے تو اس سے سرمایہ داری کی لعنت جنم لیتی ہے. اس کو روکا گیا ہے کہ اگر تمہارے پاس پانچ لاکھ روپیہ ہے ‘تو پانچ لاکھ ہی کا سودا کرو. اسلام میں ادھار کی صرف ایک صورت جائز ہے جس کو بیع سلم کہتے ہیں کہ ایک طرف سے پوری جنس یا قیمت ادا کر دی جائے اور دوسری طرف سے مال کی فراہمی یا ڈلیوری کو مؤخر (defer ) کیا جا سکتا ہے. لیکن آج کل جزوی ادائیگی کے جتنے بھی سودے کیے جا رہے ہیں ان کی شریعت اسلامی میں کوئی گنجائش نہیں ہے. 

(۴) آڑھت 

اسی کے ضمن میں آڑھت آتی ہے.حضور اکرم نے فرمایا: 
لَا یَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ (متفق علیہ) ’’کوئی شہر کا آدمی باہر کے آدمی کا مال فروخت نہ کرے.‘‘

یہ آڑھتی جو منڈیوں میں اڈے جما کر بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ مال جو یہ بیچتے ہیں ان کا اپنا نہیں ہوتا اور کئی دفعہ مال موجود بھی نہیں ہوتا‘ وہ صرف اپنے اڈے کی وجہ سے فروخت کنندہ اور گاہک دونوں سے کمیشن وصول کرتے ہیں. ایک شخص 
نے گندم بوئی ہے تو وہ خود فروخت کرے اور اگر اس شہر والے کے پاس گندم کی قیمت موجود ہے تو پہلے پوری گندم خرید لے اور پھر اپنے پاس سے اسے فروخت کرے. اس اعتبار سے دیکھئے کہ یہ کس قدر دُور رَس ہدایت ہے جو نبی اکرم  نے دی ہے ‘ورنہ ہمارے ہاں اجناس کی قیمتوں کو بڑھانے والے اور گوشت کی قیمتوں کو چڑھانے والے یہی آڑھتی ہیں. لہٰذا اسلام نے ان کے عمل دخل کو کم کیا ہے.
مڈل مین (MIDDLE-MAN)جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ‘اسلام نے اپنے معاشی ڈھانچے میں ’’مڈل مین‘‘ کے عمل دخل کو حتی الوسع کم کیا ہے.

تقسیم دولت کے لیے اقدامات 

(۱) وراثت : اسلام کا قانونِ وراثت ارتکازِ دولت کو ختم کرتا ہے. ایک شخص کی جائیداد کا وارث کوئی دوسراایک ہی شخص نہیں بنتا بلکہ وہ جائیداد اور سرمایہ بٹ کر بہت سے لوگوں کو ملتا ہے. 
(۲) انفاق فی سبیل اللہ اور نفلی صدقات. 

انسانی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر دولت کمانا. جس طرح اسلام دولت کمانے کے لیے کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیتا بالکل اسی طرح انسانی کمزوریوں کو مشتعل (exploit) کر کے دولت کمانے کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے. مثلاً:

(۱)جنسی جذبہ (Sex)جنسی جذبہ انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے. قرآن مجید نے انسانی شر مگاہ کو ’’فرج‘‘ کہا ہے. فرج کے لغوی معنی ہیں اندیشے کی جگہ. فصیل میں جہاں دراڑ ہے وہ فرج ہے ‘جہاں سے غنیم کے در آنے کا یعنی حملہ آور کے اندر داخل ہونے کا موقع ہو. لہٰذا انسان کے اس جنسی جذبہ کو مشتعل کر کے پیسہ کمانے کو حرامِ مطلق قرار دیا گیا ہے. اس طرح ساری فلم انڈسٹری‘ قحبہ گری کا کاروبار اور فحش لٹریچر کی طباعت و اشاعت اور خرید و فروخت کا دھندا ختم ہو جاتا ہے. 

(۲) شراب پر پابندی: اسی طرح شراب بھی حیوانی جذبات کو مشتعل کرتی ہے‘ چنانچہ اس کے بنانے‘ کشید کرنے‘ پینے پلانے اور خریدنے اور بیچنے کو حرامِ مطلق قرار دیا گیا ہے.

(۳) فضول خرچی: انسان اکثر و بیشتر دولت کماتا ہے تعیش کے لیے‘ لیکن اسلام میں عیاشی کے تمام دروازے بند ہیں. قرآن مجید میں تبذیر(فضول خرچی اور نمود و نمائش پر خرچ کرنے) سے روکا گیا ہے. اور اس کے مرتکب افراد کو شیطان کے بھائی قرار دیا گیا ہے. گویا اس طریقے سے بھی اسلام نے دولت کے ساتھ انسان کی محبت (attachment) کو کم کر دیا ہے. تو پھر کوئی شخص سرمائے کو کیوں چاہے گا؟ 
قصہ مختصر سرمایہ داری کی لعنت پر اسلام کا حملہ کسی ایک جانب سے نہیں بلکہ مختلف اطراف سے ہے.

تو یہ ہے وہ نقطئہ عدل‘ کہ آزادی بھی بر قرار رہے ‘یعنی اسلام میں جبری مساوات نہیں‘ لیکن اس بات کا معقول انتظام ہے کہ عوام کے درمیان معاشی نا ہمواری ایک حد سے بڑھنے نہ پائے. رہی وہ جبری اور کلی مساوات جس کی تعلیم سوشلزم دیتا ہے تو وہ دُنیا میں آج تک کبھی قائم نہیں ہوئی. اور فطرتِ انسانی سے بالکل بعید ہے.