۱) ٹیکسز کی وصولی: ایک طرف اسلام نے اس بات کی گنجائش رکھی ہے کہ اگر کسی وقت زکوٰۃ اور عشر کی حاصل شدہ آمدنی یا خمس اور اس نوعیت کے دوسرے محصولات مثلاً فے وغیرہ سے حاصل شدہ رقوم (۱ایمرجنسی کے حالات میں کفالت عامہ کے لیے کافی نہیں ہوتیں تو اسلام غرباء اور مساکین کی وکیلِ عام اسلامی ریاست کو حق دیتا ہے کہ وہ زکوٰۃ وغیرہ سے زائد جبراً بھی وصول کرے. یعنی یہ حق ملکیت اس طرح کی sanctity اور اس نوع کا تقدس نہیں رکھتا کہ جو ایک سرمایہ دارانہ نظام میں اس کو حاصل ہوتا ہے. 


(۲)قومیانا 
(Nationalisation)

دوسری طرف اگر کسی ذریعہ پیداوار کو پبلک سیکٹر میں رکھتے ہوئے عدل کا تقاضا پورا نہ ہونے پائے تو اسلامی ریاست میں اس ذریعہ پیداوار کو قومیانے 
(Nationalise ) کی گنجائش بھی موجود ہے‘ کیونکہ اصل شے عدل ہے. اگر عدل کا تقاضا پورا نہیں ہوتا تو کسی بھی صنعت وغیرہ کو قومیانے میں کوئی قدغن اسلام کی رُو سے نہیں ہے. 

اس کی سب سے بڑی دلیل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ہے. جب عراق کی زمینیں فتح ہوئیں اور دجلہ و فرات کی سر زمین اور شام اور فلسطین کے انتہائی زرخیر علاقے اور سبزہ زار مسلمانوں نے فتح کیے تو مطالبہ کیا گیا کہ ان کو مجاہدین کے اندر تقسیم کر دیا جائے. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس پر غور کیا اور یہ بڑا نزاعی مسئلہ بنا رہا. اس پر بڑی لے دے ہوئی‘ مجلس شوریٰ کے اجلاس منعقد ہوئے. دونوں طرف سے بھر پور دلائل دیے گئے ‘لیکن آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اجتہاد پر اجماع ہوا کہ ایسا کرنے سے عدل کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے. لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سب زمینیں اسلامی ریاست کی ملکیت (سٹیٹ لینڈ) ہوں گی اور اس پر کام کرنے والے مزارعے 
(tenants) کی حیثیت سے بر قرار رہیں گے. وہیں کے لوگوں کو حقوق دے دیے گئے. اگرچہ وہ ملکیت کے حقوق نہیں تھے لیکن ایک نوع کی موروثی مزارعت تھی کہ وہ ان میں زراعت کریں گے اور اسلامی ریاست ان سے لگان یا خراج وصول کرے گی. ذہن میں رکھیے کہ اگر خدا نخواستہ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اجتہاد سامنے نہ آتا تو دُنیا (۱) یہ سب اسلامی ریاست کے محاصل ہیں اور ان سب کا بڑا حصہ وہ ہے کہ جو رضی اللہ عنہ ave-nots کی کفالت کا ذریعہ بنتے ہیں. اسلامی ریاست میں taxes کی اجازت ہے. میں بد ترین جاگیرداری نظام اسلام کے ذریعے سے رائج ہو جاتا‘ کیونکہ عراق اور شام کے فاتحین کی تعداد محض چند ہزار تھی‘ اور اگر وہ تمام زمینیں ان میں تقسیم کر دی جاتیں تو وہ سب بڑے بڑے جاگیر دار بن جاتے.