میں نے یہ دو نظام آپ کے سامنے رکھے ہیں. اسلامی ریاست میں یہ نظام علیحدہ علیحدہ نہیں ہوتے‘ بیک وقت موجود ہوتے ہیں. اسلامی نظام کی برکات کا ظہور صرف اس قانونی نظام سے نہیں ہو گا. میں واضح کر دوں کہ جب تک معاشرے میں بالفعل ایسے لوگ موجود نہ ہوں جو ایمانی اور روحانی سطح پر زندگی بسر کر رہے ہوں‘ یہ مقصد حاصل نہ ہو سکے گا. ایک ہمارا معاشرہ ہے جس میں اصل قدر دولت کی ہے. جس کے پاس دولت و سرمایہ ہے وہ صاحب عزت ہے. اس سے بڑے سے بڑا نیک آدمی بھی جھک کر ملے گا. دوسری طرف ذرا چشم تصور میں لائیے شیخ احمد سر ہندی یا سلطان الہند نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہماکو جو قرآن کی ایمانی تعلیمات کا مظہراتم ہیں ‘ان کو دنیا کی کسی شے سے کوئی رغبت نہیں ہے‘ وہ دنیا کی کسی شے کی ملکیت حاصل کر کے بھی فخر کرنے والے نہیں. دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کو چھت اگر ہے تو کافی ہے. اس پر مزید حصول کی ان کے سامنے کوئی اہمیت ہی نہیں. ان کی زندگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ دولت کے انبار اور شاہی سلطنت کا جاہ و جلال ان کو متاثر نہیں کرتا اور وہ عملی نمونہ ہیں ’’قل العفو‘‘ کی قرآنی تعلیم کا. یہی وہ لوگ ہیں جو inspire کرتے ہیں اور ان سے معاشرے میں اقدار کا تعین ہوتا ہے جن کی موجودگی میں وہ ایمانی حقیقت سامنے رہتی ہے کہ اصل مسئلہ ’’معاش‘‘ کا نہیں‘ دنیا کی خاطر دوڑ دھوپ کا نہیں‘ بلکہ ’’معاد‘‘ کا ہے‘ آخرت کا ہے. اصل چیز دولت و ثروت نہیں ‘نیکی اور عمل صالح ہے. اللہ کی محبت‘ اس کی بندگی اور اس کے رسول  کی محبت اور ان کی سنت کا اتباع ہے. اور اگر روشنی کے یہ مینار بالفعل موجود نہ ہوں تو میں یہ عرض کرنے کی جرأت کرتا ہوں کہ صرف قانونی نظام سے اسلام کی برکات کا ظہور کبھی نہیں ہو گا.

اس بات کو نا گزیر ضرورت کی حیثیت سے اپنے سامنے رکھیے کہ معاشرے میں حضرت ابو ذر غفاری کی مثال کو زندہ رہنا چاہیے. ہمیں اصحاب ِصفہ کا فقر سامنے رکھنا چاہیے کہ ان کے پاس لنگوٹیاں تھیں تو اتنی کہ سجدے میں جاتے ہوئے ان کو اندیشہ ہوتا کہ کہیں ان کا ستر نہ کھل جائے‘ پیچھے والے ان کا ننگ نہ دیکھیں. منتظر رہتے کہ جب سب لوگ سجدے میں چلے جائیں تو وہ سجدے میں جائیں. یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے سب کچھ تج دیا تھا اللہ اور اس کے رسولکے واسطے. انہی میں سے ہیں حضرت ابوالدرداء ‘ حضرت انس بن مالک‘ حضرت مقداد‘ حضرت ابو ہریرہ اور انہی میں ہیں حضرت ابو ذر غفاری بھی .رضی اللہ عنہم اجمعین. اگر معاشرے میں بالفعل وہ لوگ موجود نہ ہوں جن کے بارے میں حضور اکرم نے فرمایا کہ وہ لوگ بھی ہیں کہ کہیں رشتہ کرنا چاہیں تو کوئی انہیں رشتہ نہ دے‘ کسی کی سفارش کرنا چاہیں تو کوئی ان کی بات ہی نہ سنے. لیکن اللہ کے ہاں ان کا مقام یہ ہے کہ کسی بات پر اگر وہ اللہ کی قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم کی لاج رکھے. ضرورت اس بات کی ہے کہ ’’پیکر محسوس‘‘ کے خوگر انسان اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو دیکھیں اور پھر ان میں جذبہ بیدار ہو قربانی کا ‘خدا پرستی کا‘ سادگی کا. 

آخر میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ دین کل کی حیثیت سے ایک وحدت 
(organic whole ) ہے. ہم نے اپنی سہولت کے لیے اس کے حصے بخرے کر لیے ہیں. جو چیزیں طبیعت پر گراں گزریں ان میں حیلوں کی چابی لگا کر حلت و جواز کے لیے کہیں نہ کہیں سے کوئی راستے نکال لیے . اور اب جو نتیجہ اس سے نکلا ہے آپ اس کے اوپر صرف لیبل بدل کر عوام کو یہ باور کرانا چاہیں کہ اسلام آ گیا ہے تو یہ اسلام کے ساتھ سب سے بڑی دشمنی ہو گی.

ہر دور کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں‘ آج وہ تقاضے یکسر بدل چکے ہیں (کسی دَور میں استحسان اور مصالح مرسلہ کا کسی ایک طرف رُخ تھا تو آج دوسری طرف رُخ ہے) آج ضرورت ہے کہ اجتہاد کر کے اسلام کا پورا نظام جدید دَور کے تقاضوں کے مطابق اپنی کلیت 
(totality ) کے ساتھ لوگوں کے سامنے لایا جائے کہ یہ ہے اسلامی نظام. اگر نافذ کرنا ہے تو اس کو پورے کا پورا نافذ کرنا ہو گا اور اسی کی ایک حقیر سی کوشش میں نے اس وقت کی ہے. 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم