احادیث مبارکہ میں محنت یعنی مزدوری اور عمل یدیعنی انسان کے خود اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی بڑی عظمت و فضیلت وارد ہوئی ہے. مثلاً صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم  فرماتے ہیں: 

مَا بَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًّا اِلاَّ رَعَی الْغَنَمَ 
فَقَالَ اَصْحَابُہٗ وَاَنْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، کُنْتُ اَرْعَاھَا عَلٰی قَرَارِیْطَ لِاَھْلِ مَکَّۃَ 
یعنی اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی مبعوث نہیں فرمایا جس نے اُجرت پر بھیڑیں نہ چرائی ہوں. صحابہ ؓ نے (متحیر ہو کر) سوال کیا: اللہ کے رسول  کیا آپ نے بھی یہ کام کیا ہے؟ اس کا جو جواب نبی اکرم نے ارشاد فرمایا وہ ہم سب کے لیے بہت اہم ہے‘ اس لیے کہ اس میں آنحضور  کا تواضع و انکسار بھی نمایاں طور پر جھلک رہا ہے:

’’میں تو چند قراریط کے عوض (چند ٹکوں کے عوض) مکہ کے لوگوں کے جانور چرایا کرتا تھا.‘‘

معلوم ہوا کہ اجرت یا مزدوری پر دوسروں کے لیے کام کرنا ہر گز باعث ندامت یا موجب شرم نہیں ہے. اس لیے کہ اگرچہ یہ تو مسلمات میں سے ہے کہ جو شخص خود اپنے سرمائے سے کام کر رہا ہو ‘خواہ وہ چھا بڑی ہی لگاتا ہو ‘اس کے لیے کسی احساسِ کمتری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. جبکہ انسان کسی اور کے لیے اُجرت پر کام کرنے میں یقینا عار محسوس کرتا ہے .لیکن نبی اکرم نے اس کے لیے فرمایا کہ میں خود اجرت پر دُوسروں کے لیے کام کرتا رہا ہوں.لہٰذا یہ قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ ہر گز ایسی بات نہیں ہے جس پر انسان کسی بھی درجے میں ندامت یا شرم محسوس کرے.