اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اُجرت پر کام کرنے کا ثبوت قرآن مجید سے ملتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام پورا صحرائے سینا پیدل عبور کر کے ’’ماءِ مدین‘‘ یعنی مدین کی بستی کے باہر کنویں پر پہنچے تو قرآن مجید نے ان کی اُس وقت کی بے چارگی اور دنیوی اعتبار سے بے وسیلہ ہونے کی کیفیت کا نقشہ کھینچنے کے لیے ان کی دعا کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں:

رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿۲۴﴾ (القصص)
’’پرورد گار! جو خیر بھی تو میری جھولی میں ڈال دے میں اس کا محتاج ہوں‘‘.

یعنی میری حالت اُس فقیر و مسکین کی ہے جسے ایک پیسہ بھی دیا جائے تو وہ اسے نہیں ٹھکراتا‘ بلکہ شکریے کے ساتھ قبول کرتا ہے. تو یہ ہیں وہ الفاظ جو اللہ کے ایک جلیل القدر رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے نکلے. وہاں جب اللہ تعالیٰ نے یہ صورت پیدا فرما دی کہ شیخ مدین کی صاحبزادیوں نے ان کی جس جسمانی قوت اور اخلاقی عصمت و عفت کا بچشم سر مشاہدہ کیا تھا اس کی بنا پر انہوں نے اپنے والد سے سفارش کی:

یٰۤاَبَتِ اسۡتَاۡجِرۡہُ ۫ اِنَّ خَیۡرَ مَنِ اسۡتَاۡجَرۡتَ الۡقَوِیُّ الۡاَمِیۡنُ ﴿۲۶﴾ (القصص) یعنی ابا جان! اس شخص کو ملازم رکھ لیجیے‘ بہترین شخص جسے آپ اُجرت پر کام کرنے کے لیے رکھیں قوی بھی ہونا چاہیے اورامین بھی‘ اور یہ دونوں صفات اس میں موجود ہیں. اور شیخ مدین نے آگے بڑھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک کے نکاح کی پیشکش کر دی تو آٹھ یا دس برس کی مزدوری ان کا مہر قرار پایا .حضور کا ارشاد ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی عصمت و عفت کی حفاظت اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے آٹھ یا دس سال مسلسل مزدوری کی. 

اِنَّ مُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامَ آجَرَ نَفْسَہٗ ثَمَانِیَ سِنِیْنَ اَوْ عَشْرًا عَلٰی عِفَّۃِ فَرْجِہٖ وَطَعَامِ بَطْنِہٖ 
(رواہ ابن ماجہ)