یہاں نبی اکرم  نے جس طرح سوال کرنے کی بجائے محنت مزدوری کر کے پیٹ پالنے کی ترغیب دلائی ہے وہ بھی پیش نظر رہے. حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

لَاَنْ یَاْخُذَ اَحَدُکُمْ اَحْبُـلَہٗ [فَیَاْتِیَ الْجَبَلَ] فَیَاْتِیَ بِحُزْمَۃِ الْحَطَبِ عَلٰی ظَھْرِہٖ فَیَبِیْعَہَا فَیَکُفَّ اللّٰہُ بِھَا وَجْہَہُ خَیْرٌ لَّــہٗ مِنْ اَنْ یَسْاَلَ النَّاسَ اَعْطَوْہُ اَوْ مَنَعُوْہُ 
(رواہ البخاری واحمد وابن ماجہ) 
’’تم میں سے کسی شخص کا اپنی رسی لے کر پہاڑ پر چلے جانا اور پھر لکڑیوں کا گٹھا پیٹھ پر لاد کر بیچنا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا اس کے چہرے (یعنی عزتِ نفس) کو بچانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے ‘ وہ چاہیں تو اس کو کچھ دے دیں اور چاہیں تو خالی ہاتھ لوٹا دیں.‘‘ 

تو یہ ہیں وہ اصول جو نبی اکرم  نے ماتحتوں کے بارے میں وضع فرمائے ہیں اور یہی ہیں وہ اخلاقی تعلیمات کہ جب تک وہ کسی معاشرے میں بالفعل موجود نہ ہوں تو محض کوئی خشک قانونی ڈھانچہ‘ خواہ اس کی کتنی ہی پیروی کیوں نہ کر لی جائے‘ معاشرے میں وہ برکات پیدا نہیں کر سکتا جو اسلام کی منشا ہیں اور جن کی ہم توقع رکھتے ہیں. 

اب میں اصل مسئلے کی طرف آتا ہوں. مجھے معلوم ہے کہ یہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے‘ کیونکہ ایک تو اس کا تعلق نظام اقتصادی کے ساتھ ہے اور دوسرے یہ کہ یہ کوئی الگ تھلگ مسئلہ نہیں ہے ‘بلکہ انسان اجتماعیات کے تمام پہلو یعنی سماجی‘ سیاسی اور معاشی مل کر ایک ناقابل تقسیم وحدت بنتے ہیں‘ ان میں سے کسی ایک کو علیحدہ کر کے اس پر غور نہیں کیا جاسکتا. ایک فلسفہ ٔزندگی اور نظریہ ٔحیات کی بنیاد پر جو نظامِ حیات وجود میں آئے گا اس کا اپنا ایک سماجی نظریہ ہو گا اور اسی کے ساتھ مناسبت رکھنے والا ایک معاشی 
نظام وجود میں آئے گا اور اسی نوعیت کا سیاسی ڈھانچہ بھی ترتیب پائے گا اور سب مل کر ایک حیاتیاتی وحدت (organic whole) بن جائیں گے‘ لہٰذا ان میں سے کسی ایک جزو کو نکال کر اس کی کسی اور نظام کے ساتھ پیوند کاری نا ممکن العمل فعل ہوتا ہے. ہمارے ہاں جو اصطلاحات مستعمل ہیں ‘مثلاً اسلامی جمہوریت اور اسلامی سوشلزم‘ ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاید اسلام کے ایمانیات‘ عبادات اور اخلاقیات لے کر دوسرے نظام ہائے زندگی کی عملی تشکیل کے مابین پیوند کاری کر سکتے ہیں. میرے نزدیک یہی اصل مغالطہ ہے. اسلام کی بنیاد اپنے ایک نظریے پر ہے جسے ہم ایمان کہتے ہیں. اس جڑ پر اگر تنا کھڑا ہو گا تو ا س سے نکلنے والی تمام شاخیں باہم مربوط ہوں گی. لیکن اگر وہ جڑ کمزور ہو یا اس جڑ کا بحیثیت جڑ سرے سے وجود ہی نہ ہو تو کسی بھی مصنوعی طریقے سے پیوند کاری کر کے اسلام کی برکات حاصل نہیں کی جا سکتیں. 

ایمان کیا ہے؟

اللہ اور اس کے رسول پر اس یقین کے ساتھ ایمان کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور جو راہ اس کے پیارے رسول  نے دکھائی اس پر چلے بغیر اس زندگی اور آخرت کی زندگی میں کامیابی نہیں ‘اور اس بات کا یقین کہ آخرت میں ہمارے عمل کا نیکی اور برائی کی صورت میں بدلہ ملے گا. یہ یقین ہی ایمان کی وہ بنیاد فراہم کرتا ہے کہ ہماری یہ دنیوی زندگی ہی حرفِ آخر نہیں بلکہ اصل زندگی تو موت کے بعد کی ہے اور انسان کا اصل مسئلہ بعد الموت زندگی سے متعلق ہے. رہی اس دنیا کی نا پائیدار زندگی تو یہ فانی ہے‘ عارضی ہے‘ اس کی کوئی حیثیت نہیں‘ اور اگر کچھ ہے بھی تو نہ ہونے کے برابر. ایمان کی یہ دو بنیادیں قرآن مجید کی اس ایک آیت میں سموئی ہوئی ہیں: اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ یعنی اللہ ہی ہمارا مبدأ و معاد ہے‘ ہم اُس کی طرف سے آئے ہیں اور اُسی کی طرف جانے والے ہیں.گویا یہ ایک سفر ہے. جب فی الواقع ایمان کی یہ دو بنیادیں قائم ہو جائیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ : کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ (رواہ البخاری والترمذی) کے مصداق ایک ’’اجنبی‘‘ یا راہ چلتے مسافر کی طرح زندگی بسر کرنے کا سلیقہ آ جاتا ہے. راہ چلتے مسافر کو اس راہ گزر سے جس قدر دلچسپی ہوتی ہے مؤمن کو بھی اس دُنیا سے اتنی ہی دلچسپی ہوتی ہے.