ہر نظام میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس نظام کا امتیازی سلوگن (slogan) بن جاتے ہیں. Capitalism میں آزادی (freedom) کی تکرار ملے گی. یہ گویا ان کے فکر کی بنیاد اور مرکز و محور ہے. اسی طرح اشتراکیت (Socialism) میں مساوات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے. اس میں نوعِ انسانی کے لیے کشش ہے. اس مرحلے پر یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ دونوں اعلیٰ قدریں ہیں. آزادی بھی ایک اعلیٰ قدر ہے اور مساوات بھی .ان کے مقابلے میں اسلام نے‘ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے‘عدل کا تصور دیا ہے‘ وہ آزادی اور مساوات کے درمیان بھی عدل کا راستہ تجویز کرتا ہے. نہ تو آزادی اس قدر بڑھ جائے کہ مساوات کو ہڑپ کر جائے اور نہ مساوات کا ہوا کھڑا ہو کر آزادی جیسی اعلیٰ اقدار سے انسانی معاشرہ کو محروم کر دے. ’’آزادی کی قیمت پر مساوات اور مساوات کی قیمت پر آزادی‘‘ اسلام ان دونوں کے حق میں نہیں ہے.

اسلام عدل چاہتا ہے اور یہی وہ لفظ ہے جس کو اسلام کا امتیازی slogan قرار دیا گیا ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ دُنیا میں نظامِ عدل کے قیام کی غرض آخر کیا ہے؟ اس طرف انسانی اجتماعیات کے بہت بڑے عالم حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے توجہ دلائی ہے. وہ فرماتے ہیں:
’’قرآن حکیم کی واضح تعلیمات کے مطابق مسلم معاشرے کو حکم دیا گیا ہے کہ نہ اسراف کیا جائے نہ تبذیر‘ بلکہ راہِ اعتدال اختیار کی جائے. اسراف کا مطلب ہے حد سے زیادہ خرچ کرنا اور تبذیر سے مراد ہے بے جا اور فضول خرچ کرنا.‘‘

(۱
وَّ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا وَ لَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿٪۳۱﴾ (الاعراف) 
’’اور کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو ‘بے شک وہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا. ‘‘

(۲
اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا ﴿۲۷﴾ (بنی اسراء یل) 
’’اور بے جا خرچ نہ کرو‘ بیشک بے جا خرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں. ‘‘

(۳
وَ لَا تَجۡعَلۡ یَدَکَ مَغۡلُوۡلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا ﴿۲۹﴾ (بنی اسراء یل )
’’اور اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کے ساتھ باندھ کر نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے‘ ورنہ تو بیٹھ رہے گا الزام کھایا ہارا ہوا.‘‘

(۴
وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴿۶۷﴾ (الفرقان)
’’اور(رحمن کے بندے) وہ لوگ ہیں جو خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے ہیں‘ بلکہ(ان کا خرچ) ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے. ‘‘