عموماً معاشرے میں تین قسم کے معیارِ زندگی پائے جاتے ہیں:

ا : رفاہیت بالغہ ‘یعنی عیاشانہ معیارِ زندگی ‘جس میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی چیز پسند کی جاتی ہے. اس طرح حد سے زیادہ بلکہ بے جا خرچ کیا جاتا ہے اور دولت کو ضائع کیا جاتا ہے. 

ب: رفاہیت ناقصہ‘ یعنی پست معیارِ زندگی‘ جس میں زندگی کی ضروریات بھی پوری طرح حاصل نہیں ہوتیں اور جانوروں کی سی زندگی بسر کی جاتی ہے.

ج: رفاہیت متوسطہ‘ یعنی درمیانہ معیارِ زندگی‘ جس میں زندگی کی ضروریات متوسط درجے میں حاصل ہوتی ہیں اور انسان اتنی فراغت پاتا ہے کہ وہ اپنی اور دوسروں کی بھلائی کے لیے بھی کوئی کام کر سکے اور خدا کو بھی یاد کر سکے.

اللہ تعالیٰ نے رفاہیت بالغہ یعنی عیاشی کو نا پسند فرمایا ہے اور ایسی معاشرت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے جس سے انسان دنیا کی طلب کے اندر ہی الجھ کر رہ جائے اور معیشت کی باریکیوں میں اُتر جائے اور اس کے اندر انتہائی تعمق اور غلو کرنے لگے. چنانچہ ریشم‘ سونے چاندی کے برتن اور بھاری زیورات مثلاً کنگن‘ گلوبند‘ ہار‘ طوق‘ پازیب وغیرہ کا استعمال اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہیں‘ کیونکہ یہ چیزیں انسان کو 
’’اسفل سافلین‘‘ میں پہنچا دیتی ہیں اور انسانی افکار کو مختلف قسم کی باریکیوں میں الجھا دیتی ہیں. رفاہیت کی اصل حقیقت یہ ہے کہ معاشرتی زندگی میں اچھی چیزیں طلب کی جائیں اور ادنیٰ سے اعراض کیا جائے. لیکن رفاہیت بالغہ یہ ہے کہ ایک ہی چیز میں سے سب سے اعلیٰ کا انتخاب کیا جائے.

رفاہیت ناقصہ عموماً ان لوگوں کا معیارِ زندگی ہوتا ہے جو آبادیوں سے دُور پہاڑی 
علاقوں میں رہتے ہیں اور ان کا حال وحشی جانوروں کا سا ہوتا ہے. شہروں کے وہ لوگ بھی اس ذیل میں آتے ہیں جو دوسروں کی خاطر محنت کرتے ہیںمگر انہیں پورا معاوضہ نہیں ملتا. پھر ان پر طرح طرح کے ٹیکس لگا دیے جاتے ہیں جن سے ان کی حالت گدھوں اور بیلوں کی ہو جاتی ہے جس سے سخت کام لیا جاتا ہے اور محض زندہ رہنے کے لیے کچھ کھانے کو دے دیا جاتا ہے. پھر ان کی حالت یہ ہو جاتی ہے کہ وہ محنت و مشقت سے فرصت ہی نہیں پاتے اور نہ وہ سعادتِ اُخرویہ کی طرف متوجہ ہو پاتے ہیں بلکہ ان میں سعادتِ اُخرویہ کا احساس ہی فنا ہو جاتا ہے ‘اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملک بھر میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں رہتا جو دین کے مطابق کوئی حرکت کر سکے. (حجۃ اللہ البالغہ) 

اگر اس طریقے سے انسان جکڑے ہوئے ہوں جس طرح بنی اسرائیل کو فرعونیوں نے جکڑا ہوا تھا کہ صبح سے لے کر شام تک ان سے بیگار لی جا رہی ہے‘ کسی اور بات یا اعلیٰ قدر کی طرف متوجہ ہونے کی انہیں فرصت ہی نہیں ہے. اس طرح اگر کسی انسانی معاشرے میں معاشی نا ہمواری کی یہ کیفیت ہو جائے کہ لوگوں کی اکثریت صرف دال روٹی کے حصول میں سرگرداں ہو. معاملہ جب یہ ہو جائے کہ انسان بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے کمر توڑ دینے والی محنت کرے اور پھر بھی اس کی ضروریات پوری نہ ہو ں تو انسان کا حیوانی سطح پر آ جانا کوئی بعید از قیاس بات نہیں. اس لیے اسلام نظامِ عدل و قسط قائم کرنا چاہتا ہے‘ نہ صرف قانونی نظام بلکہ سماجی عدل بھی‘ تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اللہ کی معرفت حاصل کریں. اس سے لو لگائیں‘ اس سے محبت کریں اور اپنے مقصد ِتخلیق کو پورا کریں .اور یہ صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ انہیں اس کے لیے فرصت ہو‘ وقت ملے اور یہ نہ کہہ سکیں کہ : 

؏ تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے!