اسلام کے معاشی نظام کے دو رُخ

اسلام کس قسم کا معاشی اور اقتصادی نظام قائم کرنا چاہتا ہے؟ اس کی وضاحت سے قبل اس حقیقت کا اظہار ضروری ہے کہ اسلام کے معاشی نظام کے دو رُخ یا دو پہلو ہیں یا یوں سمجھئے کہ دو حصے ہیں ‘مگر اس طرح کہ دونوں اپنی اپنی جگہ ایک مکمل نظام کا نقشہ پیش کرتے ہیں. دونوں کا اپنا ایک فلسفہ ہے‘ اپنا نظریہ ٔ ملکیت اور نظریہ ٔحقوق ہے اور اسی طرح دونوں کا اپنا نظریۂ قدرِ زائد ہے. معاشی نظام میں اہمیت رکھنے والی تمام چیزیں ان دونوں نظاموں میں جدا جدا ہیں اور اپنا جداگانہ فلسفہ رکھتی ہیں. سورۃ الرحمن کی آیۂ مبارکہ
 
مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ ﴿ۙ۱۹﴾بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ ﴿ۚ۲۰﴾ 

’’اُس نے دو دریا جاری کیے جو برابر چل رہے ہیں‘ مگر ان کے درمیان ایک غیرمرئی پردہ حائل ہے جو انہیں باہم مدغم نہیں ہونے دیتا. ‘‘
کے مصداق اسی شکل میں یہ دونوں نظام موجود ہیں اور اسلام جو مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے وہ ان دونوں کے حسین امتزاج سے پیدا ہوتا ہے.