یہ دونوں قسم کے نقطہ ہائے نظر کسی غلط فہمی کی بنیاد پر بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور خلوصِ نیت کے ساتھ بھی. اسلام کے قرنِ اول میں بھی یہ غلط فہمی پیدا ہوئی، چنانچہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے جن پر زہد اور فقر کا غلبہ تھا ’’آیۂ کنز‘‘ (۱) کو ظاہری معنوں پر محمول کیا اور اس رائے کا اظہار کیا کہ سونا چاندی اور سرمایہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنے پاس رکھنا حرام ہے. اس سے ایک بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا. خلافت راشدہ نے ان کی اس رائے کو انتہاپسندانہ قرار دیا. چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دَور میں انہیں مدینہ بدر کیا گیا اور مدینہ سے باہر ہی ان کا انتقال ہوا. انتقال کے وقت صرف ان کی اہلیہ محترمہ ان کے پاس تھیں. ان کے زہد کی شدت کا یہ عالم تھا کہگھر میں ضرورت کی چند چیزیں تھیں ‘مگر ان کی موجودگی پر بھی پریشان تھے اور بار بار کہتے تھے: ’’حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ تم اپنے گرد سانپ اور بچھو جمع کر لو گے اور یہ مجھے نظر آ رہے ہیں‘‘. اہلیہ محترمہ نے کہا: ’’کہاں ہیں وہ سانپ اور بچھو جو ہم نے جمع کر لیے ہیں؟‘‘ تو فرمانے لگے: ’’یہ دیکھو توا ہے‘ چمٹا ہے‘ دیگچی ہے‘ پہننے کے کپڑے ہیں‘ اور یہ سب سانپ اور بچھو ہی تو ہیں.‘‘
یہ صحیح ہے کہ اسلام قانونی نظام سے رُوحانی نظام کی طرف قدم بڑھانے کا تقاضاکرتا ہے‘ وہ چاہتا ہے کہ انسان اس کی طرف پیش قدمی کرے اور اسی بات سے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو کامل خلوص کے ساتھ مغالطہ لا حق ہوا‘ لیکن بد نیتی کے ساتھ بھی یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.