اخلاقی و رُوحانی نظام کے اصول

اسلام کے اخلاقی یا روحانی نظام کے چار اصول ہیں:

(۱) ملکیت کی کلی نفی. 
(۲) انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اُس کا کسب نہیں بلکہ اللہ کا فضل ہے‘ اُس کی عطا ہے. 
(۳) انسان کا حق اُس کی جائز ضروریات ہیں. بعض احادیث میں حضور اکرم نے انہیں متعین فرما دیا ہے ‘یعنی دو وقت کے کھانے کے لیے سامان ‘سر چھپانے کو چھت‘ دو جوڑے کپڑے اور عفت و عصمت کی حفاظت کے لیے بیوی.
(۴) اب جو کچھ انسان کے پاس بچ رہے اسے دوسروں کی ضروریات کے لیے وقف کردے . اگرچہ قانونی طور پر اسے اس پر حق تصرف حاصل ہے ‘لیکن اخلاقی تقاضا یہ ہے کہ وہ دوسروں کی طرف منتقل ہو.

(۱) وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾ (التوبۃ)
تو یہ اپنے طور پر ایک مکمل نظام ہے. اس میں نظریہ ٔملکیت بھی ہے اور اپنے حق کا تصرف بھی. نیز اگر قدرِ زائد ہے تو اس کا مصرف بھی موجود ہے.