قرآن مجید میں ربا کا لفظ دو چیزوں کے ضد کے طور پر آیا ہے:
(۱) ربا بمقابلہ بیع : وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ (البقرۃ:۲۷۵)
(۲) ربا بمقابلہ صدقات اور تزکیہ ٔنفس کے واسطے خرچ کرنے کے‘ جیسے وَ مَاۤ اٰتَیۡتُمۡ مِّنۡ زَکٰوۃٍ تُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُضۡعِفُوۡنَ ﴿۳۹﴾ (الروم)
اسلام کی رُوحانی تعلیمات میں اسی مفہوم کے ساتھ سورۃ البقرۃ کی اس آیت یَمۡحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرۡبِی الصَّدَقٰتِ ؕ (آیت ۲۷۶) ’’ اللہ ربا کو گھٹاتا اور صدقات کو بڑھاتاہے‘‘میں صدقات کے مقابلے میں ربا کا لفظ آیا ہے. یوں سمجھئے کہ ایک انسان یا مثلاً ملازم پیشہ آدمی کی ضرورت پوری ہونے کے بعد کچھ سرمایہ اُس کے پاس جمع ہو گیا ہے. اب اس فاضل سرمائے کے دو مصرف ہیں‘ یا تو وہ اسے کسی کاروبار میں لگائے. اس صورت میں اس کی محنت اس میں شامل نہیں ہو گی. اب اس اخلاقی نظام میں فاضل سرمائے سے جو بڑہوتری ہو گی وہ بھی ایک طرح سے ربا قرار پائے گی. اس کا صحیح مصرف یہ ہے کہ اسے محتاجوں اور مسکینوںمیں تقسیم کر دیا جائے یا وہ لوگ جن کے پاس کاروبار کی بنیاد ڈالنے کے لیے سرمایہ موجود نہیں انہیں سرمایہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ رزقِ حلال با عزت طریقے سے حاصل کرنے کے قابل ہو سکیں. ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ان کی محنت میں سے حصہ وصول کرنا گو قانونی طور پر جائز بھی ہو‘ اخلاقی اور رُوحانی سطح پر یہ ممنوعات کی فہرست میں شامل ہو گا. اس لیے اس فاضل سرمائے کا مصرف یہ ہونا چاہیے کہ ضرورت مند اس سے فائدہ اٹھائیں. اور اگر زیادہ نہیں تو انہیں یہ سرمایہ بطورِ قرضِ حسنہ ہی دے دیا جائے تاکہ وہ بھی اپنے پائوں پر کھڑے ہوں اور معاشرے میں صاحب عزت اور صاحب حیثیت بن سکیں. قرآن کی اخلاقی اور روحانی تعلیم کا یہی وہ نکتہ ہے جسے اپنا کر ایک جنتی معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے.