قانونی اور فقہی نظام

اس کے بعد آئیے اسلام کی قانونی معاشی تعلیمات کی طرف اور ان کے ضمن میں سمجھئے اسلام میں محنت کے تصور کو. اسلام کا قانونی معاشی نظام ایک طرح کا Controlled Capitalism ہے کہ اس میں تینوں جبلی تقاضے موجود ہیں. اس میں نجی ملکیت (private ownership) بھی ہے اور ذاتی دلچسپی بھی‘ اور ساتھ ہی ساتھ آزاد معیشت کا تصور بھی. البتہ اس میں حلال اور حرام کی تفریق موجود ہے. پابندی کمانے پر نہیں بلکہ حلال سے تجاوز کرنے پر ہے. ملکی قانون حق تصرف تسلیم کرتا ہے اور اپنی مرضی سے اللہ کی راہ میں دینے کا تقاضا بھی کرتا ہے. البتہ جو فرض ہے مثلاً زکوٰۃ وہ جبراً وصول کر لی جائے گی‘ لیکن زکوٰۃ کے علاوہ اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہو گی. مگر ذہن میں رہے کہ اسلام نے اس قانونی نظام کو دو پہلوئوں سے حدود کا پابند کیا ہے تاکہ یہ ایک لعنت بن کر نوعِ انسانی پر مسلط نہ ہو جائے. ایک تو وہ خطوط متعین کیے گئے جن کی موجودگی میں سرمایہ کاری سرمایہ داری بننے سے محفوظ رہے. دوسری طرف آزاد معیشت میں بعض لوگوں کے آگے بڑھ جانے اور بعض لوگوں کے پیچھے رہ جانے کے امکان کو تسلیم کر کے جبری مساوات کی بجائے اس فرق و تفاوت کو بڑی حد تک ختم کرنے اور اس درمیانی خلا کو پر کرنے کے لیے راستہ تجویز کیا گیا. نظامِ زکوٰۃ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے. اسلام نے ایک حد ِفاصل قائم کر دی ہے کہ جو بھی اس حد سے آگے بڑھ جائیں وہ مال دار ہیں اور دینے کے مکلف ہیں اور جو اس حد تک نہیں پہنچ سکے وہ مستحق اور ضرورت مند ہیں. 

معروف معنوں میں پہلے والوں کو haves اور دوسروں کو have nots شمار کرلیجیے. لیکن یہ تقسیم آپ کے اختیارات کے تابع نہیں کہ آپ جسے چاہیں have اور جسے چاہیں have not بنا دیں‘ بلکہ نصاب کی ایک حد مقرر کر دی گئی ہے کہ اتنے اونٹ یا اتنا سونا وغیرہ ہے تو دینے والوں کی صف میں اور اگر اس سے کم ہے تو لینے والوں کی صف میں. اس تقسیم کے بعد یہ

(۱) وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (التغابن)
(۲) وَلَـکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰـاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَW (البقرۃ) 
اصول قائم کر دیا گیا: 

’’تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ‘‘ 
یعنی اغنیاء سے لے کر مستحقین میں تقسیم کی جائے گی تاکہ اس تفریق کا کسی حد تک خاتمہ کیا جا سکے جو معاشرے میں پیدا ہو کر بہت سی برائیوں کا باعث بنے گی.