لیکن ایسا نہیں ہو گا کہ کچھ لوگ تو ارتکازِ دولت کر کے عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں اور کچھ لوگ ضروریاتِ زندگی سے بھی محروم رہ جائیں. اسلام اجتماع و ارتکازِ دولت کا مخالف ہے‘ سرمائے کو گردش میں لانے کا متقاضی ہے ‘لیکن وہ سرمائے کی فطری گردش کے حق میں ہے. سرمائے کی مصنوعی گردش جو سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے‘ اسلام کے نزدیک پسندیدہ نہیں. اس نے اصولاً یہ بات طے کر دی: 

کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ 
(الحشر) 
’’تاکہ دولت تم میں سے سرمایہ داروں کے مابین ہی اُلٹ پھیر میں نہ رہ جائے. ‘‘

جیسے ایک کروڑ پتی کی بیٹی ایک دوسرے کروڑ پتی کے بیٹے سے بیاہی گئی‘ لاکھوں کا جہیز اس گھر میں جمع ہو گیا جہاں کروڑوں روپے پہلے سے موجود ہیں. سرمایہ تو گردش میں آیا مگر مصنوعی انداز میں اور معاشرے کو اس سے قطعاً کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور یہ سرمایہ نچلے طبقات تک منتقل نہیں ہو سکا. اسی طرح ایک سرمایہ دار کے بیٹے کی سالگرہ پر لاکھوں روپے کے تحائف جمع ہو گئے. سرمایہ کی گردش کا عمل یہاں بھی وقوع پذیر ہوا لیکن 
بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ (سرمایہ داروں کے درمیان). اسلام کی منشا یہ ہے کہ معاشرے میں جو بھی ذرائع پیداوار ہیں(اور زمین سب سے بڑا ذریعہ پیدا وار ہے) ان کی منصفانہ تقسیم ہو اور ان کا حاصل پورے معاشرے میں پھیلے. میں نے Controlled Capitalism کی جو اصطلاح استعمال کی ہے اب اسے Internally managed Capitalism کے الفاظ میں ادا کیا جا رہا ہے ‘کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام بھی یہ بات جان چکا ہے کہ ننگی اور عریاں سرمایہ داریت اس دَور میں نہیں چل سکتی. اس کا کوئی مستقبل نہیں ‘بلکہ وہ تو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے. بقول علامہ اقبا ل ؎

دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا