سرمایہ دارانہ نظام کلی طور پر اپنے فلسفے کے ساتھ اب قابل قبول نہیں رہا. اس کا کوئی مستقبل نہیں اور وہ تباہی کے کنارے تک پہنچ چکا ہے. اس لیے اپنے تحفظ کے لیے قابل عمل اقدامات کر رہا ہے‘ جس کی نمایاں مثال برطانوی معاشرہ میں ملتی ہے. وہاں ان لوگوں کے لیے جو کام نہیں کر پاتے روزگار نہ ہونے کی صورت میں الائونس مقرر دیے گئے ہیں. اس طرح بنیادی ضروریات کی کفالت ریاست اپنے ذمے لے لیتی ہے‘ آزاد معیشت کا تصور بھی مجروح نہیں ہوتا اور ضرورت مند لوگوں کی کفالت کا سامان بھی کردیا جاتا ہے‘ لیکن غور کیا جائے تو اسلام کے نظامِ معیشت میں یہ اصول چودہ سو سال پہلے طے کیا جا چکا ہے ‘جہاں سرمایہ دارانہ نظام یا بے خدا معاشرہ ٹھوکریں کھا کر اب پہنچ رہا ہے. اسلام چودہ سو سال پہلے یہ بتا چکا ہے کہ کمانے کھانے کی آزادی ہے اور آگے بڑھنے کی بھی‘ لیکن جو پیچھے رہ جائیں ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی معاشرے کا فرض ہے اور زکوٰۃ و عشر کا نظام اس سلسلے کی ایک کڑی ہے.
 
کفالت عامہ کے اصول کو 
Collective Insurance بھی کہا جا سکتا ہے‘ اس فرق کے ساتھ کہ انشورنس خواہ کسی قسم کی ہو اسے انسان اپنی کمائی میں بچت کر کے حاصل کرتا ہے ‘لیکن اسلام نے جو اصول وضع کیا ہے اس میں ایک طبقہ بچاتا ہے اور جمع کرتا ہے‘ لیکن ضروری نہیں کہ اس کا فائدہ بھی اُسے ہی پہنچے جس نے بچایا اور جمع کیا ہے‘ بلکہ ایک مال دار اور غنی ہے جو بچاتا اور جمع کرتا ہے اور دوسرا طبقہ جو ضرورت مند ہے اس سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے اور اس کی یہ کفالت نظامِ زکوٰۃ اور عشر کے ذریعے سے ہوتی ہے. اب آئیے اسلام کے فقہی اور قانونی نظام میں کمائی میں حلال و حرام کی قیود کی طرف.