ایک دائرہ اور بھی ہے جس میں بعض چیزیں حلال اور بعض حرام ہیں اور بعض وہ ہیں جن کی حلت و حرمت میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے. ان چیزوں کو ہم ایک ہی گروپ میں لاتے ہیں. ایک شخص محنت کر سکتا ہے‘ صحت مند اور محنتی ہے ‘لیکن اس کے پاس سرمایہ موجود نہیں. اس کے برعکس ایک دوسرا شخص ہے جس کے پاس سرمایہ موجود ہے. یہ دونوں مل کر کاروبار کرتے ہیں. ایک شخص سرمایہ فراہم کرتا ہے اور دوسرا اس میں اپنی محنت شامل کرتا ہے. اس محنت اور سرمائے کے امتزاج کو مضاربت کہتے ہیں. یہ اسلام میں جائز ہے لیکن پسندیدہ نہیں. جس طرح طلاق جائز ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز. اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ جس کے پاس صرف اس قدر سرمایہ ہے کہ وہ اپنی ضرورت ہی پوری کر سکتا ہے تو وہ خود کاروبار کرے اور اپنی ضروریات پوری کرے ‘لیکن اگر اس کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی موجود ہے‘ مثلاً وہ ملازمت کرتا ہے تو اس کے پاس جو ضرورت سے زائد سرمایہ ہے وہ اپنے مجبور بھائی کو دے دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس کی محنت میں سے حصہ نہ بٹائے.
مضاربت میں بھی شرط رکھی گئی ہے کہ نقصان کا پورا بوجھ سرمائے پر پڑے گا اور محنت کش ایک پائی کے نقصان میں بھی شریک نہیں ہو گا. اسلام نے محنت کے تحفظ کو منافع کا جائز ذریعہ قرار دیا ہے .اس صورت میں وہی مضاربت جائز ہو گی جس میں نقصان کی پوری ذمہ داری سرمایہ فراہم کرنے والا شخص برداشت کرے اور منافع میں وہ محنت کش کا ساجھی ہو. لیکن یہ وضاحت دوبارہ کر لی جائے کہ اسلام کے نزدیک یہ عمل بھی پسندیدہ نہیں. اس کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ اصل زائد سرمایہ رکھنے والا شخص یہ سرمایہ کسی دوسرے ضرورت مند مسلمان بھائی کو بطور قرض حسنہ دے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے اور اس کی خوشحالی قومی خوشحالی میں حصہ دار بنے. اس سے اجتماعی زندگی میں حسن پیدا ہو گا. اگر آپس کے معاملات مجبوری میں طے پائیں تو یہ حسن کہاں پیدا ہو گا! قرآن مجید بیع کو بھی باہمی رضا مندی سے مشروط کرتا ہے: عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ (النسائ:۲۹) یعنی تمہاری رضا مندی سے.
مثال کے طور پر آپ کو ایک جوتا خریدنا ہے. آپ مارکیٹ میں گھومیں پھریں. آپ کو اندازہ ہے کہ اس وقت ایک معیاری جوتے کی قیمت سو سوا سو روپے ہے. آپ خریدتے ہیں تو اس میں کسی مجبوری کا دخل نہیں ہوتا. آپ سمجھتے ہیں کہ اس وقت لاگت اس قدر ہے. اس پر منافع کی شرح اندازاًیہ ہو گی. یہ باہمی رضا مندی کا سودا ہے. لیکن کوئی ایسا معاملہ جس میں کوئی شخص کسی مجبوری کے تحت ایسا کر رہا ہو ناپسندیدہ ہے. اگرچہ سرمایہ رکھنے والا شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ صاحب وہ میرے پاس اپنی خوشی سے آیا ہے اور سرمایہ لے کر کاروبار کرنے کی صورت میں اس کے منافع میں مجھے شریک کرنے کی پیشکش کی ہے ‘ اس میں کسی مجبوری کو کوئی دخل نہیں لیکن حقیقتاً اس کی مجبوری کواس میں دخل ہے. اگر اس کے پاس سرمایہ موجود ہو تو وہ کسی کو اپنے خون پسینے کی کمائی میں کیوں شریک کرے گا؟ یہ مضاربت کی وہ شکل ہے جو قانونی طور پر حلال ہے لیکن اسلام اسے پسند نہیں کرتا.