حلال و حرام کی حدود

اسلام پہلی شرط حلال و حرام کی پا سداری کی عائد کرتا ہے تاکہ معاشرے میں یہ تمیز اٹھ جانے کے بعد جو طوفانِ بد تمیزی برپا ہوتا ہے اور انسانیت کی حیوانیت میں تبدیلی کا عمل شروع ہوتا ہے اس کا سد باب کیا جا سکے. اس کے بعد ان اقدامات پر نظر ڈالیے جو قرآن مجید اپنے معاشی نظام میں وضع کرتا ہے اور عش عش کیجیے. لیکن یہ وضاحت بہرحال ضروری ہے کہ قرآن مجید معاشیات کی کتاب نہیں ہے کہ اس نے عنوانات قائم کر کے معاشی اصطلاحات پر بحث کی ہو اور ایک ایک نکتے کی وضاحت ضروری سمجھی گئی ہو. تاہم کتاب ہدایت ہونے کی بنا پر قرآن مجید میں زندگی کے اس پہلو میں بھی رہنمائی کی گئی ہے. قرآن مجید نے جو ہدایات دی ہیں ان سب کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اسلام اپنے قانونی نظام میں بھی زیادہ سے زیادہ محنت پر انحصار کرتا اور سرمایہ کو کم از کم اہمیت دیتا ہے. محنت اور سرمائے کے امتزاج سے معاشی ڈھانچہ کی تشکیل کو وہ تسلیم کرتا ہے‘ لیکن محض سرمائے کی بنیاد پر بغیر محنت کے کمائی کو وہ اچھا نہیں سمجھتا. اس کے نزدیک اصل چیز محنت ہے ‘سرمایہ نہیں .مثلاً اس کی بد ترین صورت یہ ہے کہ کسی کاروبار میں سرمایہ لگانے والا شخص منافع میں شریک ہو لیکن نقصان میں حصہ دار نہ ہو‘ اور منافع کی بھی متعین شرح لینے پر مصر ہو تو یہ ایک انتہا پسندانہ سطح ہے جس میں وہ محض سرمائے کی حیثیت سے کمائی کا حق دار بنتا ہے. اس مثال سے چار امور سامنے آتے ہیں: 
(۱) سرمایہ بحیثیت سرمایہ منافع کا مستحق ٹھہرا .
(۲) اپنے تحفظ کی ضمانت .
(۳) نقصان میں عدم شرکت. 
(۴) نفع کی ایک متعین شرح.
جہاں یہ چاروں صورتیں جمع ہوں تو یہ ربا ہے اور اسلام نے اپنے نظامِ معیشت میں اس کی جڑ کاٹ دی ہے. زنا ‘شراب غرض کسی برائی کے بارے میں قرآن مجید نے وہ سخت لہجہ اختیار نہیں کیا جو ربا کے بارے میں اختیار کیا ہے. ربا کے بارے میں اس کی آتش غضب یوں بھڑکتی ہے: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۷۸﴾فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ 
(البقرۃ) ’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سود میں سے جو باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم واقعی مؤمن ہو. پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ.‘‘

اس قدر سخت وعید کسی اور معاملے میں نہیں آئی‘ اور اس کی بہترین وضاحت اور ہماری ذہنی سطح کے مطابق بات قرآن کے مزاج شناس اور اللہ کے پیارے رسول نے یوں فرمائی: 

اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ حُوْبًا اَیْسَرُھَا اَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہٗ 
(رواہ ابن ماجہ والبیہقی) 
’’ربا کے ستر جزو ہیں ‘اُن میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے نکاح کرے. ‘‘

یہ انداز ہمیں ناگوار محسوس ہوتا ہے کہ حضور اکرم نے ایسی تشبیہہ کیوں اختیار کی‘ لیکن غور کریں تو اس کی حکمت روزِ روشن کی طرح ہمارے سامنے آ جاتی ہے. بعض چیزیں ایسی ہیں جن سے ہمیں طبعی طور پر نفرت ہے اور بعض چیزیں اس کے ہم پایہ برائی ہیں لیکن ہم انہیں جبلی یا طبعی طور پر برائی نہیں سمجھتے. جب کوئی شخص انہیں پہلی چیزوں کے مقابلے میں لائے گا اوران سے تشبیہہ دے کر بیان کرے گا تو حقیقت واضح ہو گی. یہی حکمت حضور  کے اس فرمان میں پوشیدہ ہے. تم شاید اسے جرم نہ سمجھو ‘یہ کہہ کر خود کو مطمئن کر لو کہ سود لے لیا تو کون سی برائی ہو گئی‘ یہ در اصل ماں سے نکاح کرنے کے مترادف ہے. گویا ہمارے نظامِ شریعت میں بد ترین برائی ربا قرار پاتی ہے. نظامِ سرمایہ داری میں سب سے زیادہ اہمیت ہی سرمائے اور اس کے تحفظ کو ہے اور اسلام نے اسے ربا قرار دے کر اس کی جڑ ہی کاٹ دی ہے. اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ جس میں سرمایہ مارکیٹ کو کنٹرول کرتا ہے‘ اس کے اتار چڑھائو کا باعث بنتا ہے. ایک شخص دس لاکھ روپے سے اپنی مالی حیثیت کا تعین کراتا ہے. اب وہ سٹہ کھیلتا ہے. زبانی کلامی ہی خریدا اور بیچ دیا‘ لیا اور دیا .صرف اپنی مالی حیثیت کی بنا پر مارکیٹ میں اُتار چڑھاؤ پیدا کرتا ہے ‘ورنہ حقیقت میں نہ کچھ لیتا ہے اور نہ دیتا ہے. کبھی یک دم مال خرید کر قیمتیں چڑھا دیتا ہے اور کبھی مال ریلیز کر کے قیمتیں گھٹا دیتا ہے. یہ سب سرمائے کا کھیل ہے. سرمایہ منڈی سے کھیل رہا ہوتا ہے.
کراچی سٹاک ایکس چینج میں یہ دلچسپ صورت ِحال دیکھی جا سکتی ہے کہ نظری طور پر سودے ہو رہے ہیں‘ نہ کچھ لینا اور نہ کچھ دینا. پاگلوں کی طرح چیخ پکار ہوتی ہے اور سیٹھوں ‘ساہوکاروں کو اطلاع دینے کے لیے دوڑتے ہیں. یہ منڈی کا اتار چڑھاؤ ہو رہا 
ہوتا ہے اور سرمایہ داروں کا کھیل. 

اسی ضمن میں انشورنس آتی ہے. ان سب چیزوں کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے. انشورنس میں دو پہلو ہیں جو حرمت لیے ہوئے ہیں ‘ایک تو جوا ہے اور دوسرا سرمائے کے تحفظ کی ضمانت. اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے.ایک شخص دس لاکھ روپے سے ماچس بنانے کا کارخانہ قائم کرتا ہے اور دس لاکھ روپے کی انشورنس کراتا ہے. اس کا سرمایہ آفاتِ سماویہ کی زد میں ہے. کوئی اتفاقی حادثہ‘ آگ یا سیلاب اس کار خانے کو تباہ کر سکتا ہے. لیکن وہ اپنے سرمائے کا تحفظ یوں کرتا ہے کہ اس کی انشورنس کرواتا ہے اور دُوسرا ظلم یہ کرتا ہے کہ یہ تحفظ اپنی جیب پر بوجھ ڈال کر حاصل نہیں کرتا بلکہ اس کا سالانہ پریمیم بھی جو وہ ادا کرتا ہے لاگت میں شمار کرتا ہے. ماچس کی ایک ڈبیہ پر وہ پریمیم کی لاگت ڈالتا ہے اور صارف سے اس کی قیمت وصول کرتا ہے‘ صرف اس لیے کہ کسی حادثے کی صورت میں اس کا سرمایہ محفوظ ہو جائے . جہاں تک اجتماعی مفاد کا تعلق ہے ہمارا ایک ملک ایک قوم ہے ‘جس کے مادی مفادات مشترک ہیں. تباہی تو آ گئی اور دس لاکھ روپے کا سرمایہ ملکی سطح پر ضائع ہو گیا‘ لیکن سرمایہ دار اس نقصان میں سے ایک پائی بھی برداشت کرنے کے لیے آمادہ نہیں اور خریدار کا خون چوس کر اپنے سرمائے کا تحفظ کرتا ہے. یہ سرمایہ داروں کی امداد باہمی کا نظام ہے جو اپنے سرمائے کا تحفظ کر رہے ہیں. اس کی حرمت کے لیے اسلام نے قطعی فیصلہ کر دیا ہے: 
کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ . 

ایک دائرہ اور بھی ہے جس میں بعض چیزیں حلال اور بعض حرام ہیں اور بعض وہ ہیں جن کی حلت و حرمت میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے. ان چیزوں کو ہم ایک ہی گروپ میں لاتے ہیں. ایک شخص محنت کر سکتا ہے‘ صحت مند اور محنتی ہے ‘لیکن اس کے پاس سرمایہ موجود نہیں. اس کے برعکس ایک دوسرا شخص ہے جس کے پاس سرمایہ موجود ہے. یہ دونوں مل کر کاروبار کرتے ہیں. ایک شخص سرمایہ فراہم کرتا ہے اور دوسرا اس میں اپنی محنت شامل کرتا ہے. اس محنت اور سرمائے کے امتزاج کو مضاربت کہتے ہیں. یہ اسلام میں جائز ہے لیکن پسندیدہ نہیں. جس طرح طلاق جائز ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز. اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ جس کے پاس صرف اس قدر سرمایہ ہے کہ وہ اپنی ضرورت ہی پوری کر سکتا ہے تو وہ 
خود کاروبار کرے اور اپنی ضروریات پوری کرے ‘لیکن اگر اس کے پاس کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی موجود ہے‘ مثلاً وہ ملازمت کرتا ہے تو اس کے پاس جو ضرورت سے زائد سرمایہ ہے وہ اپنے مجبور بھائی کو دے دے اور اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اس کی محنت میں سے حصہ نہ بٹائے.

مضاربت میں بھی شرط رکھی گئی ہے کہ نقصان کا پورا بوجھ سرمائے پر پڑے گا اور محنت کش ایک پائی کے نقصان میں بھی شریک نہیں ہو گا. اسلام نے محنت کے تحفظ کو منافع کا جائز ذریعہ قرار دیا ہے .اس صورت میں وہی مضاربت جائز ہو گی جس میں نقصان کی پوری ذمہ داری سرمایہ فراہم کرنے والا شخص برداشت کرے اور منافع میں وہ محنت کش کا ساجھی ہو. لیکن یہ وضاحت دوبارہ کر لی جائے کہ اسلام کے نزدیک یہ عمل بھی پسندیدہ نہیں. اس کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ اصل زائد سرمایہ رکھنے والا شخص یہ سرمایہ کسی دوسرے ضرورت مند مسلمان بھائی کو بطور قرض حسنہ دے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے اور اس کی خوشحالی قومی خوشحالی میں حصہ دار بنے. اس سے اجتماعی زندگی میں حسن پیدا ہو گا. اگر آپس کے معاملات مجبوری میں طے پائیں تو یہ حسن کہاں پیدا ہو گا! قرآن مجید بیع کو بھی باہمی رضا مندی سے مشروط کرتا ہے: 
عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ (النسائ:۲۹یعنی تمہاری رضا مندی سے.

مثال کے طور پر آپ کو ایک جوتا خریدنا ہے. آپ مارکیٹ میں گھومیں پھریں. آپ کو اندازہ ہے کہ اس وقت ایک معیاری جوتے کی قیمت سو سوا سو روپے ہے. آپ خریدتے ہیں تو اس میں کسی مجبوری کا دخل نہیں ہوتا. آپ سمجھتے ہیں کہ اس وقت لاگت اس قدر ہے. اس پر منافع کی شرح اندازاًیہ ہو گی. یہ باہمی رضا مندی کا سودا ہے. لیکن کوئی ایسا معاملہ جس میں کوئی شخص کسی مجبوری کے تحت ایسا کر رہا ہو ناپسندیدہ ہے. اگرچہ سرمایہ رکھنے والا شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ صاحب وہ میرے پاس اپنی خوشی سے آیا ہے اور سرمایہ لے کر کاروبار کرنے کی صورت میں اس کے منافع میں مجھے شریک کرنے کی پیشکش کی ہے ‘ اس میں کسی مجبوری کو کوئی دخل نہیں لیکن حقیقتاً اس کی مجبوری کواس میں دخل ہے. اگر اس کے پاس سرمایہ موجود ہو تو وہ کسی کو اپنے خون پسینے کی کمائی میں کیوں شریک کرے گا؟ یہ مضاربت کی وہ شکل 
ہے جو قانونی طور پر حلال ہے لیکن اسلام اسے پسند نہیں کرتا.