اسی قبیل کی ایک چیز مزارعت بھی ہے. ایک شخص کی زمین ہے‘ دوسرا اس پر محنت کرتا ہے اور اس کی پیداوار میں زمیندار کو شریک کرتا ہے. صنعتی انقلاب کے بعد مشین اور دوسری چیزیں یا معدنیات بھی ذرائع پیداوار میں شامل ہو گئیں. لیکن قدیم ترین ذریعہ پیداوار زمین ہی ہے اور زمین کے بارے میں بقول علامہ اقبال اسلام کا نقطئہ نظریہ ہے: ؎

رزقِ خود را از زمیں بردن رواست
ایں متاعِ بندہ و ملک خداست!

مزارعت کے بارے میں ہمارے ہاں اختلاف ہے. امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ اسے حرامِ مطلق کہتے ہیں ‘وہ کسی نوع کی مزارعت اور غیر حاضر زمینداری کو جائز نہیں سمجھتے. دوسرے فقہاء نے احادیث پر ذرا غور کر کے کچھ ایسے پہلو نکالے ہیں جس سے کچھ گنجائش پیدا ہوتی ہے. لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اُس دور کے خاص حالات تھے. مصالح مرسلہ یا استحسان کے اصول کے تحت ایسی گنجائش نکالی گئی‘ ورنہ حضور اکرم  نے تو مزارعت پر لفظ ربا استعمال کیا ہے. 

حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور کو معلوم تھا کہ ان کے پاس کوئی زمین نہیں ہے. آپ  مدینہ منورہ سے کہیں باہر جا رہے تھے‘ دیکھا کہ رافع ایک کھیت کو پانی لگا رہے ہیں. آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کھیتی کس کی ہے اور زمین کس کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا :کھیتی میری ہے‘ بیج میں نے ڈالا ہے اور محنت بھی میں نے کی ہے‘ جبکہ زمین بنی فلاں کی ہے. پیداوار ہمارے درمیان نصف نصف تقسیم ہوگی.اس پر حضور نے فرمایا: 
اَرْبَیْتُمَا (تم دونوں نے ربا کا معاملہ کیا ہے) ’’یہ زمین اس کے مالک کو لوٹا دو اور جو کچھ اس پر تمہارا خرچ ہوا ہے وہ تم اس سے لے لو‘‘ . اس لیے کہ اس زمین میں اُس کی کون سی محنت شامل ہے جس کا وہ معاوضہ لے رہا ہے؟ صرف اس وجہ سے کہ زمین کا مالک ہے وہ اپنے بھائی کی گاڑھے پسینے کی کمائی سے حصہ وصول کررہا ہے.
واقعہ یہ ہے کہ مزارعت کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا فتویٰ آنکھیں کھول دینے والا ہے اور ہمیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے .ویسے تو یہاں ملک کی نوے فی صد آبادی حنفیوں پر مشتمل ہے ‘لیکن ایسے اہم معاملات میں امام ابو حنیفہ کا فتویٰ کوئی ماننے کے لیے تیار نہیں. ویسے تو انہیں امام اعظم کہا اور مانا جاتا 
ہے اور سید الفقہاء بھی‘ لیکن جہاں ان کا فتویٰ اچھا نہیں لگتا اسے اٹھا پھینکنے اور دیوار پر دے مارنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی. یہ ہماری دو عملی ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے. مزارعت اور مضاربت کو ہم نے تیسرے درجے میں رکھا ہے.

اب آئیے چوتھی صورت کی طرف ‘کہ جو مال موجود نہ ہو اس کے بیع کی جو شکل بھی ہو گی اسلام میں حرام ہو گی. یہ جتنے ایڈوانس سودے ہو رہے ہیں‘ یہ تمام معاملات جن میں سرمایہ کھیلتا ہے ان سب کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں. بیع وہ ہے کہ مال موجود ہے اور قیمت ادا کر دی گئی یا دو چیزیں ہیں جن کا تبادلہ ہو گیا. ایک ہاتھ سے دیا دوسرے ہاتھ سے لیا‘ یہ بیع ہے اور اس میں بھی باہمی رضامندی 
(عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ) ضروری ہے. اگر مجبوری سے فائدہ اٹھایا گیا ہے‘ اگر کہیں مصنوعی قلت کے ذریعے سے ریٹ بڑھا دیے گئے ہیں‘ اگر کہیں کوئی اور کھیل کھیلا گیا ہے تو اس میں حرمت کا پہلو شامل ہوجائے گا. ہمارے ہاں جو سودے بازی ہوتی ہے کہ زمین آپ نے ٹھیکے پر دی ہے‘ اب چاہے کسان کو کچھ بچے نہ بچے آپ کا ٹھیکہ محفوظ ہے‘ باغ میں ابھی پھل نہیں آیا اس کا سودا ہو گیا ہے‘ یہ سب حرام مطلق ہے. ہمارے دین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں. اُدھار کی شکل میں صرف ایک سودا جائز ہے جسے بیع سلم کہتے ہیں. دو چیزوں کا بالکل تعین ہوجائے اور ان میں سے ایک چیز کاملاً دے دی جائے یہ بیع سلم ہے. ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز فلاں وقت لے لوں گا اور یہ بیعانہ لے لیجیے. اگر وقت پر وہ چیز نہ دے سکا تو بیعانہ ہضم. اب یہ بیعانہ کس کھاتے میں ہضم ہو رہا ہے؟ وہ سودا تو پورا ہو نہیں پایا. یہ ساری چیزیں در حقیقت اس وجہ سے ہمارے ہاں رواج پا گئی ہیں کہ ہمارے یہاںشریعت کوئی ہیئت حاکمہ کی حیثیت سے ہے ہی نہیں‘ مارکیٹ میں جو رواج چلا وہ ہم نے اختیار کر لیا.