ایک شخص کے پاس پانچ لاکھ روپے ہیں اور وہ اوو رٹریڈنگ میں پچاس لاکھ روپے کا مال لے لیتا ہے تو اسلام میں اسے نا جائز قرار دیا گیا ہے. اگر آپ کے پاس پانچ لاکھ روپے ہیں تو پانچ لاکھ کا سودا کر لیجیے ‘پانچ لاکھ اسی وقت آپ کو دے دیناہوں گے. اس ادائیگی کو بیع سلم کہتے ہیں. بیع کے ضمن میں بھی حدود قائم کر دی گئی ہیں اور ان سب کا مقصد یہی ہے کہ سرمائے کو زیادہ کھل کھیلنے کا موقع نہ ملے. اسی سلسلے میں میری زندگی کا ایک یاد گار واقعہ ہے کہ میں اسی شہر لاہور کے ایک بڑے دار العلوم میں ایک عالم دین سے ملنے گیا. شیخ الحدیث ہیں‘ حدیث کا درس دے رہے تھے‘ میں بھی بیٹھ گیا. مشکوٰۃ شریف کی ایک حدیث زیر درس تھی جو کئی طرق سے آئی متن وہی ہے طُرق مختلف ہیں : 

لَا یَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ 
یعنی کوئی کسی جگہ کا رہنے والا شخص باہر سے آنے والے کے مال کو فروخت نہ کرے. درس مکمل ہو گیا‘ موجودہ کاروبار کے بارے میں کوئی ریفرنس نہ آیا. ہمارے معاشرے میں بیع و شراء کے جو طریقے ہیں اس پر کوئی بحث نہ ہوئی. میں نے سوال کیا: ’’حضرت! ہمارے ہاں جو آڑھت کا کاروبار ہوتا ہے اس حدیث کی روشنی میں اس کا کیا حکم ہے؟‘‘

شیخ الحدیث نے جو جواب دیا وہ آپ بھی سنیےاور تعجب کیجیے. انہوں نے مجھ سے سوال کیا: ’’یہ آڑھت کیا ہوتی ہے؟‘‘ اب یہ تجاہل عارفانہ تھا یا فی الواقع انہیں معلوم نہیں تھا‘واللہ اعلم!میں نے جب تشریح کی کہ یہاں کچھ لوگ منڈیوں میں دکانیں اور اڈے بنا کر بیٹھتے ہیں‘ باہر سے کاشت کار اناج اور سبزیاں لے کر مختلف منڈیوں میں آتے ہیں اور یہ آڑھتی ان کا مال فروخت کرتے ہیں اور اپنا کمیشن لیتے ہیں. ان کا جواب تھا کہ ’’یہ تو مطلقاً حرام ہے.‘‘ 

اب اندازہ کیجیے کہ یہ فیصلہ کتنا قطعی ہے. اس میں بھی لوگوں نے حلال کے بہت سے پہلو نکال لیے ہیں کہ دو طرفہ آڑھت کا حکم تو یہی ہے ‘لیکن اگر ایک طرف کمیشن لیا جائے تو وہ حرام نہیں ہو گا‘ اس لیے کہ یہ دوسری شکل ہو جاتی ہے‘ گویا وہ خریدار کی طرف سے وکیل بن گیا‘ جو وکالت کر کے اس کی طرف سے مال کا خریدار ہے‘ اس طرح وہ اپنی وکالت کی اُجرت لے رہا ہے جس میں اس کے لیے حلت کا پہلو پیدا ہو گیا ہے. اس تاویل میں بھی کسی بد نیتی کو دخل نہیں ‘لیکن میں عرض کروں گا کہ ہمارے ہاں فقہاء نے اصول ایسے بنائے ہیں کہ جو عموم بلویٰ ہو یعنی کوئی چیز عام ہو گئی ہو یا زمانے کا ایک خاص چلن بن جائے 
اور اب اس کو بالکل ختم کرنا ممکن نہ ہو تو اسے مصالح مرسلہ کہہ لیں یا استحسان ‘بہر کیف ایسی چیزوں کے بارے میں فقہاء نے لوگوں کے لیے آسانی کی گنجائش پیدا کی ہے .مختصراً یہ کہ اس کے اندر جو حلت کا پہلو نکالا گیا ہے وہ یہ ہے کہ دو طرفہ آڑھت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ حرامِ مطلق ہے اور ہمارے ہاں اجناس‘ سبزیوں اور گوشت کا جو کاروبار ہوتا ہے وہ اس دو طرفہ آڑھت ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ مثلاً گوشت کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو قصائی شور مچاتے ہیں کہ ساری مصیبت ان آڑھتیوں کی ڈالی ہوئی ہے جو اصل مہنگائی کا باعث ہیں. اس میں خرابی در خرابی یہ ہے کہ آڑھتی اپنا سرمایہ ایڈوانس کرتا ہے اور اس طرح پابندی لگاتا ہے کہ اپنا مال میرے ذریعے فروخت کرو گے. یہ خالص ربا ہے کہ کسی نے کوئی رقم کسی کو دی اور اس رقم سے چاہے کوئی گن کر نقد معاوضہ نہیں لیا لیکن دوسرے کو اس کا پابند کیا کہ وہ اپنا مال اس کے ذریعے فروخت کرے گا . یہ درحقیقت ربا ہے‘ یہ گندگی ہے اور ’’ظُلُمَاتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ‘‘ کا مصداق ہے. بیع کے بارے میں ان حدود و قیود کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اسلام نے اپنے فقہی و قانونی نظام میں بھی ایسے اقدامات کیے ہیں کہ سرمائے کو زیادہ کھل کھیلنے کا موقع نہ ملے. 

رومن امپائر کے عہد میں کرنسی ایجاد ہوئی تھی. انسان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کتنی بڑی مصیبت اپنے سر پر مسلط کر رہا ہے. جب تک یہ کرنسی کا تصور نہیں تھا دنیا میں لین دین ہو رہے تھے‘ لیکن تبادلے کی بنیاد پر تھے. اجناس کا تبادلہ تھا. ایک شخص نے کھیت میں کام کیا اور فصل پیدا کی . دوسرا شخص کرگھے پر بیٹھا ہوا کھدر بنا رہا ہے‘ دونوں اپنی ضرورت کے مطابق تبادلہ کر لیتے. اس میں ذخیرہ اندوزی نہیں ہوتی تھی. وہ کتنی گندم اکھٹی کر لے گا؟ لیکن جب سونے کو معین کر دیا گیا کہ ایک تولہ سونا مساوی ہے اتنے گز کپڑے کے یا اتنے من گندم کے تو کرنسی کی لعنت درمیان میں آگئی. اب سرمایہ داری کا آغاز ہوا. آپ نے اپنی تجوری میں فرض کیجیے دس سیر سونا رکھا ہوا ہے‘ اب آپ کو موقع مل گیا‘ آپ جس طرح چاہیں مارکیٹ سے کھیلیں ‘جس طرح چاہیں اونچا نیچا کر لیں‘ جس طرح چاہیں کنٹرول کریں. یہ اس سرمایہ کی لعنت ہے جس میں اصل چیز کرنسی ہے. اس کرنسی نے یہ 
سارے امکانات پیدا کیے. سرمائے کی اپنی ایک فارم ہے ‘جبکہ آج کل کی اصطلاح میں مکان اور انسانی محنت بھی سرمایہ ہے ‘لیکن انسان کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے والی فارم کرنسی نے یہ ساری مصیبتیں انسان پر لادی ہیں‘ ورنہ انسانی ضرورت آپس کے تبادلہ سے پوری ہو سکتی ہے. اس میں خواہ مخواہ تعریف کا پہلو تلاش نہ کیا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ اشتراکی ممالک میں اس وقت جو معاشی ضروریات آپس کے تبادلہ سے پوری کی جاتی ہے اور کرنسی کا عمل دخل کم سے کم ہے‘ انسان ٹھوکریں کھا کر وہاں پہنچ رہا ہے جہاں نبی اکرم  نے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب نے چودہ سو سال پہلے پہنچا دیا تھا: لَا یَبِعْ حَاضِرٌ لِبَادٍ.ایک شخص نے گندم پیدا کی ہے وہ آ کر خود بیچے اور اگر کسی کے پاس دس ہزار روپیہ ہے وہ اس دس ہزار کی گندم خرید کر بیچے. لیکن اگر ایک شخص اڈہ بنا کر بیٹھ جائے اور اس اڈہ کی بنا پر کماتا ہے تو یہ حرام ہے. یہ حدود وہ ہیں جن سے سرمایہ کاری سرمایہ داری نہیں بنتی‘ سرمایہ کینسر بن کر مسلط نہیں ہوتا. اس کے علاوہ کچھ اضافی اقدامات ہیں. جو دولت بھی مرتکز ہو گئی ہے اسے تقسیم کرنے کے لیے‘ گردش میں لانے کے لیے وراثت کے احکام ہیں. اسلام کا رجحان ارتکازِ دولت کی طرف نہیں بلکہ تقسیم دولت کی طرف ہے اور وراثت اس میں ایک اہم رول ادا کرتی ہے. 

اس طرح سے اس میں دو چیزیں مزید شامل کر لیجئے. انسانی کمزوریوں کو 
exploit کر کے کمانا. جنس انسان کی بہت بڑی کمزوری ہے. اس کے اس جنسی جذبے کو مشتعل کر کے کمانا حرامِ مطلق قرار دیا گیا اور ہمارے ہاں فلم انڈسٹری کا کاروبار اسی بنیاد پر ہے. اس لیے میں نے اس کو کمزوری کہا ہے. قرآن مجید نے بھی شرم گاہ کے لیے لفظ فرج استعمال کیا ہے ‘ یعنی ’’اندیشے کی جگہ‘‘ .فصیل میں جہاں دراڑیں پڑ جائیں ‘ جہاں سے ایک غنیم کو اندر آنے کا موقع مل سکتا ہے وہ ’’فرج‘‘ ہے .چنانچہ اعضائے جنسی کو بھی قرآن حکیم فرج سے تعبیر کرتا ہے کہ انسانی شخصیت کی فصیل میں یہ سب سے بڑی اندیشے کی جگہ ہے‘ اس کا کمزور پہلو ہے ‘یہاں سے اس پر بڑی جلدی سے حملہ کیا جا سکتا ہے .شراب کی حرمت اور فحاشی کے کاروبار پر قدغن کی یہی حکمت ہے. انسان اگر دولت‘ دولت کے لیے کماتا ہے تو اس میں ایک بہت بڑا عنصر اس کی عیاشی کرنے کی خواہش ہوتا ہے ‘لیکن اسلام نے عیاشی کے دروازے ہی بند کر دیے ہیں. اب ایک انسان سرمائے کو لے کر کیا کرے گا؟ آخر وہ سرمایہ کاہے کے لیے ہے؟ اس طریقے سے سرمائے کے ساتھ attachment کم کر دی گئی ہے. 

اسلام نے سرمایہ داری پر مختلف پہلوؤں اور مختلف اطراف سے حملے کیے ہیں اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ اس نے اپنے قانونی نظام میں نجی ملکیت 
(private ownership) کی صورت بھی بر قرار رکھی ہے. ذاتی دلچسپی کو بروئے کار لانے کا موقع دیا ہے .گویا کھلا بھی چھوڑ دیا ہے‘ محنت بھی کرو‘ کوشش بھی کرو‘ بھاگ دوڑ کرو‘ کھیت میں خوب محنت سے ہل چلاؤ‘ پسینہ بہاؤ. جو کچھ نکلے گاتمہارا ہے‘ اس پر کوئی ظلم اور جبر کے ساتھ قبضہ نہیں کر سکے گا. اس میں سے جو حق معین ہے وہ دے دو. اس حق معین کے ذریعے تو کفالت ِ عامہ کا بندوبست ہو گیا کہ have not اور have کی تقسیم زیادہ نہ بڑھنے پائے اور کوئی بھی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہ جائے. یہ وہ نقطہ عدل ہے کہ آزادی بھی بر قرار رہے اور مساوات بھی. اس کے علاوہ اسلام کے نظام میں یہ گنجائش بھی ہے کہ اگر کسی موقع پر زکوٰۃ اور عشر کے ذریعے سے حاصل شدہ رقوم سے کفالت ِ عامہ کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں تو جبری ٹیکس وصول کرنے کا اختیار ہے. یعنی حق ملکیت کو بھی کسی طرح کا تقدس عطا نہیں کیا گیا جو کسی سرمایہ دار نظام میں ہوتا ہے‘ بلکہ وہاں اس ریاست کو جو غرباء و مساکین کی کفیل ہے یہ حق حاصل ہے کہ اگر اس کی ضروریات کسی وقت اتنی بڑھ جائیں یا کوئی ایمرجنسی کی صورت ہو‘ مثلاً جنگ شروع ہو گئی‘ قحط نے آ لیا اور صرف زکوٰۃ و عشر سے کفالت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے تو حکومت مزید بھی لے سکتی ہے. دوسری طرف اگر کسی کاروبار کو پبلک سیکٹر میں دینے سے عدل کے تقاضے پورے نہیں ہوتے تو ریاست کو نیشنلائزیشن کی بھی اجازت ہے‘ کیونکہ اصل قدر عدل ہے. مثلاً اجارہ داری ہے‘ کسی چیز کا صرف ایک ہی کارخانہ ہے .اب مالک کے لیے یہ موقع ہے کہ جو وہ قیمت چاہے وصول کرے اور لوگ دینے پر مجبور ہیں. اس صورت میں چونکہ تقاضائے عدل پورا نہیں ہوتا‘ اس صنعت کو قومی ملکیت میں لینے کی پوری آزادی ہے.

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں عراق کی زمینیں فتح ہوئیں. (یہ بات آپ کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ عراق اور شام کا علاقہ انتہائی زرخیز ہے.) فتوحات کے بعد مطالبہ کیا گیا کہ یہ زمینیں فوج میں تقسیم کر دی جائیں ‘اس لیے کہ یہ مالِ غنیمت ہے. اس پر تنازعے کی صورت پیدا ہوئی. دونوں طرف سے دلائل دیے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اجتہادی بصیرت 
نے فیصلہ دیا کہ اس طرح عدل کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے. بلکہ یہ سب ریاست کی ملکیت ہوں گی اور اس پر کام کرنے والے موروثی مزارع کی حیثیت سے کام کرتے رہیں گے‘ البتہ اسلامی ریاست لگان وصول کرے گی. حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگر یہ فیصلہ نہ فرماتے تو اسلام کے ذریعے دنیا میں بد ترین جاگیرداری نظام رائج ہو جاتا ‘کیونکہ ان فوجیوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی. قانون کے ڈھانچے میں بھی غرباء کی مصلحت کو پیش نظر رکھا گیا. بجائے سرمایہ کے محنت کو اتنا تحفظ دیا گیا کہ اگر کہیں نقطہ عدل بحال نہ رہے تو اسے نجی ملکیت سے نکال کر قومی تحویل میں لے لیا جائے. اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد چمکتا ہوا سورج ہے.

اسلامی ریاست میں دونوں نظام علیحدہ علیحدہ نہیں ہوتے‘ یہ بیک وقت ہوتے ہیں اور اسلام کی برکات کا ظہور صرف قانونی نظام سے نہیں ہو پائے گا جب تک کہ معاشرے میں کچھ ایسے لوگ موجود نہ ہوں جو ایمانی اور رُوحانی سطح پر زندگی بسر کریں‘ کیونکہ معاشرے کی اقدار کو کنٹرول یہی لوگ کرتے ہیں. ہمارے موجودہ معاشرے میں اصل قدر دولت اور سرمایہ ہے. جس کے پاس دولت اور سرمایہ ہے اسے بڑے سے بڑا شخص جھک کر ملے گا.لیکن روحانیت کے علم برداروں کے ہاں یہ بات نہیں. وہ جو سلطان الہند نظام الدین اولیاء رحمہ اللہ علیہ جیسے گدڑی پوش درویش ہیں اور گویا اسلام کی ایمانی و روحانی تعلیمات کا مظہراتم ہیں‘ انہیں دنیا کی کسی شے سے رغبت نہیں. وہ دنیا کی کسی چیز کی ملکیت اختیار کر کے فخر کرنے والے نہیں. دن بھر کی ضرورت کے لیے دال روٹی اور سر چھپانے کے لیے ایک چھت میسر ہے تو بس اس سے زیادہ کسی مزید چیز کے حصول کی خواہش نہیں. مال وزر کے انبار انہیں قطعاً متاثر نہیں کرتے. جب تک کہ معاشرے میں ایسے لوگ موجود نہ ہوں جو اس اعلیٰ سطح پر زندگی بسر کرتے ہوں اور وہ آیت 
وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ کا نمونہ بن جائیں‘محض قانونی اقدامات سے معاشرے کی اصلاح نہیں ہو سکتی. اس لیے معاشرہ میں ایک ایسا طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے معاشرتی اقدار کا تعین ہوتا ہے‘ جس سے وہ ایمانی حقیقت سامنے آتی رہتی ہے کہ اصل مسئلہ معاش کا نہیں معاد کا ہے‘ اصل چیز دولت نہیں نیکی ہے‘ عمل صالح ہے‘ اللہ کا نام ہے اور اُس کے رسول کا اتباع اور ان کی محبت ہے. یہ اقدار اگر معاشرے میں روشنی کے مینار کی طرح بالفعل موجود نہ ہوں تو اسلام کی برکات کا کامل ظہور کبھی نہیں ہو سکتا. اس بات کو ایک نا گزیر ضرورت کی حیثیت سے سامنے رکھیے کہ یہ نقشہ بھی معاشرے میں موجود رہنا چاہیے‘ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ موجود رہنے چاہئیں اور ابو ذرؓ تو ایک انتہا کو پہنچ گئے تھے‘وہ فقراءِ صحابہ اور اصحاب ِصفہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تو معاشرے کے اندر موجود تھے‘ انتہائی مسکین روکھی سوکھی کھانے والے ‘جنہوں نے سب کچھ اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں دے دیا تھا ‘جیسے حضرت ابو الدرداء‘ حضرت مقداد اور حضرت انس بن مالک رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ. ایسے لوگوں کے متعلق جناب نبی کریم  نے فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے چہرے غبار آلود ہوتے ہیں‘ لیکن اللہ کے ہاں ان کا مقام یہ ہے کہ اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسموں کی لاج رکھے گا. یہ ہے ہمارے روحانی نظام کا ایک نقشہ. اگر یہ موجود نہ ہو تو محض قانونی نظام ہمارے مسائل کا حل نہیں. 

حضور اکرم  نے فرمایا: جس نے مکہ کی زمین کا کرایہ لیا اس نے سود کھایا ‘ کیونکہ لوگ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ آنے پر مجبور ہیں. اب یہاں کے پروہت اور پنڈت کئی ہزار روپے ایک چھوٹے سے کمرے کے چند دنوں کے لیے وصول کرتے ہیں اور یہ سب ان کے نزدیک حلال ہے اور اس پر عیش کرتے ہیں. اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ان کی ساری دولت پہلے بیروت میں عیاشیوں اور فحاشیوں پر خرچ ہوتی تھی‘ اب لندن‘ پیرس اور امریکہ میں خرچ ہوتی ہے. اگر صرف قانونی حیلہ بازیوں پر اکتفا کیا جائے تو یہی نتیجہ بر آمد ہوتا ہے. اس لیے قانونی اور روحانی نظام کے حسین امتزاج سے ہی اسلام کا معاشی نظام ترتیب پاتا ہے ‘اور جہاں ان دو کی یکجائی ہو تب کسی نظام کو اسلام کا معاشی نظام کہا جا سکتا ہے. یہ ہیں چند نکات جن کی روشنی میں ایک اسلامی فلاحی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے. 
؏ گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں! 


خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
۲۴/اگست ۱۹۸۲ء