یہ مقالہ بتاریخ ۱۱/جنوری ۱۹۷۹ء ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل لاہور میں جسٹس ذکی الدین پال صاحب کی صدارت میں منعقدہ لائنز کلب لاہور کے سالانہ اجلاس میں پڑھا گیا. 

احمدہٗ واصلّی علی رسُولہ الکریم ‘ امّا بعدُ
فاعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم 

محترم صدر مجلس و صدر و اراکین لائنز کلب اور معزز حاضرین! 

سب سے پہلے تو میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اس منفرد اور منتخب مجلس کو خطاب کرنے کا موقع دیا. میں اسے اپنے لیے ایک اعزاز متصورکرتا ہوں اور اس پر آپ کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں.

البتہ یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مجھے گفتگو کے لیے جو موضوع آپ نے دیا ہے اس میں کسی قدر ناانصافی کا معاملہ ہوا ہے ‘ میرے ساتھ بھی اور موضوع کے ساتھ بھی. اس لیے کہ میں نہ معاشیات کے میدان کا آدمی ہوں نہ مالیات کا‘ اور محاصل کامسئلہ نہایت فنی نوعیت کا حامل اور بے حد پیچیدہ ہونے کے علاوہ بیک وقت معاشیات و مالیات دونوں سے متعلق ہے ایک ایسا ہی لطیفہ حال ہی میں اور بھی ہوا ہے اور وہ یہ کہ جناب سید نزہت بخاری صاحب (چیف ایگزیکٹو حیدری انٹرنیشنل فائی نینس لمیٹڈ) نے حال ہی میں ایک مقالہ پڑھا جس کا موضوع تھا : 

"Tax on income vs tax on produce and possession." 

لیکن لطیفہ یہ کہ یہ مقالہ پیش کیا گیا پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فلسفہ کی شعبہ جاتی انجمن یعنی مجلس فلسفہ کے عہدیداروں کی حلف برداری کی تقریب میں . گویا وہاں موضوع کے اعتبار سے مقرر درست تھا لیکن 
سامعین غلط تھے. یہاں مقرر تو یقینا بالکل غلط ہے‘ البتہ سامعین کے بارے میں میں کچھ کہہ نہیں سکتا! بہرحال میں نے یہ گمان کیا کہ میرا انتخاب موضوع کے جزوِ ثانی کے اعتبار سے ہوا ہے ‘یعنی : ’’System of Taxation in Islam‘‘ 

میں سے مجھ پر نگہ انتخاب اسلام کے ایک ادنیٰ خادم اور قرآن حکیم کے حقیر طالب علم ہونے کی بنا پر پڑی ہے اور میرے لیے یہ بھی یقینا ایک بڑا اعزاز ہے. بہرحال میں کوشش کروں گا کہ اصل روحِ دین اور نظامِ اسلام دونوں کے اعتبار سے اسلام میں نظامِ محاصل کے بارے میں جو کچھ میں سمجھ پایا ہوں‘ آپ کے سامنے رکھ دوں! 

’’Taxation in Islam‘‘ 
کے الفاظ سے آپ سے آپ جو حقیقت ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس اصطلاح کے وضع کرنے والوں کے نزدیک اسلام ایک ایسے نظامِ معیشت کا علمبردار ہے جس میں ذاتی ملکیت (private ownership) اور آزاد معیشت (free-enterprise) کو اصولِ موضوعہ کی حیثیت حاصل ہے. اس لیے کہ اجتماعی یا قومی ملکیت کے اصول پر مبنی نظام معیشت میں تو سب کچھ حکومت ہی کی ملکیت پر ہوتا ہے‘ لہٰذا محاصل کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا!

میں آغازِ گفتگو ہی میںعرض کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک یہ مفروضہ جزء اً تو درست ہے کلیۃً صحیح نہیں ہے. اس لیے کہ یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے اور اس سے پوری حقیقت سامنے نہیں آتی!

میرے نزدیک نظامِ معاشی کے اعتبار سے اسلام کے دو رخ یا دو پہلو ہیں‘ اور یہ دونوں ایک دوسرے پر بہت حد تک 
interdependent ہیں اور اسلام کی برکات و دونوں ایک دوسرے پر بہت حد تک interdependent ہیں اور اسلام کی برکات و ثمرات کا کامل ظہور ان دونوں کے اتصال و اجتماع ہی سے ہو سکتا ہے. اور یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہو گا کہ اگر ان میں سے ایک پہلو نگاہوں سے اوجھل رہ جائے اور توجہ صرف ایک ہی پر مرتکز ہو جائے تو اس سے جو تصویر سامنے آئے گی وہ بہت بعید از حقیقت ہو گی. ان دو پہلوؤں سے میری مراد یہ ہے کہ اسلام کا ایک اخلاقی و روحانی نظام ہے اور دوسرا قانونی و فقہی نظام. ان دونوں کے تقاضے بسا اوقات مختلف ہی نہیں متضاد ہوتے ہیں‘ تاہم ان دونوں کے امتزاج ہی سے اسلام کا کامل نظام وجود میں آتا ہے.

آپ چاہیں تو ان دونوں پہلوؤں کو ’’دعویٰ‘‘ (thesis) اور ’’جوابِ دعویٰ‘‘ (anti-thesis) سے تعبیر فرما لیں اور ان دونوں کے امتزاج کو synthesis قرار دے لیں‘ بہرحال ان کے وجود سے انکار ممکن نہیں ہے! ایک چھوٹی اور سادہ سی مثال سے بات واضح ہو جائے گی . کوئی شخص آپ کے ایک تھپڑ مار دے تو اگر آپ بالکل عاجز و کمزور نہیں ہیں‘ اس لیے کہ اس صورت میں تو ’’قہر درویش بر جانِ درویش‘‘ کے سوا اور کوئی صورت قابل عمل ہی نہیں ہوتی‘ اس کے برعکس اگر آپ بدلہ لینے پر قادر ہیں تو آپ کے سامنے دو راستے کھلے ہیں. ایک یہ کہ آپ بدلہ لیں اور دوسرے یہ کہ آپ معاف کر دیں. اسلام کا قانونی و فقہی نظام بدلے اور قصاص کی حوصلہ افزائی کرتا ہے‘ چنانچہ قرآن حکیم فرماتا ہے: وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ (البقرۃ:۱۷۹یعنی ’’اے ہوش مندو! تمہارے لیے قصاص ہی میں زندگی ہے!‘‘لیکن دوسری طرف اسلام کی اخلاقی و روحانی تعلیمات ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ زیادتی کرنے والے کو معاف کر دیا جائے‘ چنانچہ کہیں ارشاد ہوتا ہے : وَ اَنۡ تَعۡفُوۡۤا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ؕ (البقرۃ:۲۳۷’’اگر معاف کر دو تو یہ تقویٰ اور خداترسی سے قریب ترہے‘‘.کہیں تشویق و ترغیب کے انداز میں فرمایاجاتا ہے : وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ ؕ (آل عمران:۱۳۴’’وہ لوگ جو غصہ کو پی جائیں اور لوگوں کو معاف کر دیا کریں!‘‘ دیکھ لیجیے کہ عفو و قصاص ایک دوسرے کی بالکل ضد ہیں‘ لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ انسانی معاشرہ ان میں سے صرف ایک پر استوار ہو سکتاہے. دونوں اپنے اپنے مقام و محل پر لازم و ناگزیر ہیں اور حسن معاشرت ان دونوں کے امتزاج ہی سے وجود میں آتا ہے.

اسی پر قیاس کر کے سمجھ لیجیے کہ اسلام کے معاشی نظام کے بھی دوپہلو ہیں‘ چنانچہ ایک جانب اسلام کا قانونی اور فقہی نظامِ معیشت ہے جس کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ایک نوع کی محدود سرمایہ داری 
(Controlled Capitalism) ہے. اس لیے کہ اس میں انفرادی سرمایہ کاری کی اجازت موجود ہے‘ اگرچہ اسے ’’سرمایہ داری‘‘ بننے سے بعض تحدیدی اقدامات نے روک دیا ہے. دوسری جانب اسلام کا اخلاقی و روحانی نظامِ معیشت ہے جس کے بارے میں میں پورے انشراحِ صدر سے عرض کرتا ہوں کہ وہ ایک نہایت اعلیٰ قسم کی روحانی اشتراکیت (Spiritual Socialism) ہے‘ اور ایسا کامل سوشلزم ہے کہ اس سے آگے کا تصور بھی ممکن نہیں. اس لیے کہ سوشلزم یا کمیونزم میں توپھر بھی انسانی ملکیت کا اثبات موجود ہے‘ اگرچہ انفرادی نہیں اجتماعی‘ لیکن اسلام اپنی اخلاقی و روحانی اور صحیح تر الفاظ میں ایمانی تعلیم کی رو سے انسانی ملکیت کی کلی نفی کرتا ہے‘ چنانچہ قرآن حکیم میں بار بار یہ الفاظ آتے ہیں :لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ (البقرۃ:۲۸۴’’آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے ان سب کا مالک صرف اللہ ہے!‘‘ انسان کسی اور شے کا مالک تو کیا ہو گا‘ خواہ وہ زمین ہو‘ مکان ہو‘ ساز و سامان ہو‘ روپیہ پیسہ ہو‘ وہ تو خود اپنا اور اپنے وجود کا مالک بھی نہیں‘ اس کے ہاتھ‘ پائوں‘ اعضاء و جوارح اور جسم و جان اور اس کی کل توانائیاں سب اللہ کی ملکیت ہیں‘ اور وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا امین ہوں ‘ بقول شیخ سعدیؒ : ؎

ایں امانت چند روزہ نزدِ ماست
درحقیقت مالک ہر شے خدا ست
یا بقول علامہ اقبال :
رزقِ خود را از زمیں بردن رواست
ایں متاعِ بندہ و ملک خداست!

اسلام کے اس روحانی سوشلزم کی رو سے‘ جس کا آغاز انسانی ملکیت کے تصور کی کلی نفی سے ہوتا ہے‘ اس دنیا میں انسان کا حق صرف اس کی ضروریات ہیں اور بس!! ضرورت سے زائد اس کے پاس جو کچھ ہے اس پر اس کو قانونی و فقہی حق حاصل ہو تو ہو حقیقی حق کوئی حاصل نہیں. یہ دراصل دوسروں کا حق ہے جسے اللہ نے صرف بطورِ امتحان اس کے تصرف میں دے دیا ہے تاکہ دیکھے کہ آیا وہ اسے حق داروں تک پہنچا کر اور ’’حق بحقدار رسید‘‘ والا معاملہ کر کے سرخرو ہوتا ہے یا دوسروں کے حق پر قبضہ ٔمخالفانہ جما کر بیٹھ رہتا ہے اور اس ’’قدرِ زائد‘‘کے بل پر ابنائے نوع پر دھونس جماتا ہے اور شادیوں اور دوسری تقریبات میں اس غصب شدہ دولت کو اللوں تللوں میں اڑا کر محروموں کے زخمی دلوں پر اور نمک چھڑکتا ہے!! اب جن کے دلوں میں ایمان واقعتا راسخ ہوجاتا ہے اور اللہ اور آخرت پر ان کا یقین محکم قائم ہو جاتا ہے اور ان کی نگاہ ہر دم 
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕ (البقرۃ)پر جمی رہتی ہے‘ ان کی روش لامحالہ پہلی ہوتی ہے‘ جس کو قرآن نے واضح کیا ان الفاظ میں: وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ (البقرۃ:۲۱۹’’(اے نبی !) وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں ؟(یعنی اللہ کی راہ میں کس حد تک دے ڈالیں؟)کہہ دیجیے جو بھی زائد از ضرورت ہو!‘‘ اور جس کی طرف علامہ اقبال نے اشارہ کیا اپنے اس شعر میں کہ ؎

جو حرفِ ’’قُلِ الْعَفْو‘‘ میں پوشیدہ تھی اب تک
اِس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار!

پھر یہ بھی کہ اسے اپنا کوئی احسان نہ سمجھو‘ بلکہ یہ تو تھا ہی دوسروں کا حق. بفحوائے الفاظِ قرآنی : وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿۪ۙ۲۴﴾لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ ﴿۪ۙ۲۵﴾ (المعارج) ’’اور جن کے مالوں میں معین حق ہے ‘سائلوں اور محروموں کا!‘‘اور وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ (الاسرائ:۲۶)’’اور ادا کرو قرابت داروں اور مسکینوں اور مسافروں کو ان کا حق!‘‘ اس کے برعکس جو لوگ اس کائنات اور خود اپنی ذات و حیات کی اصل حقیقتوں سے بالکل بے خبر ہو کر زندگی بسر کرتے ہیں ان کی روش دوسری ہوتی ہے ‘ جس کا اوّلین نتیجہ ہے اسراف اور انتہائی منزل ہے تبذیر!! اسراف کہتے ہیں جائز ضرورتوں پر ضرورت سے زائد خرچ کرنے کو اور یہ بھی بہت معیوب ہے. جبکہ تبذیر ہے بالکل بلاضرورت صرف نمود و نمائش اور اللوں اور تللوں میں روپیہ اڑانا اور یہ وہ جرم ہے جس کے مرتکبوں کو شیطان کے بھائی قرار دیا گیا. بفحوائے الفاظِ قرآنی: اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ (الاسرائ:۲۷’’یقینا فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں‘‘. ا عاذنا اللّٰہ من ذٰلک! 
الغرض اسلام کی روحانی و اخلاقی یا ایمانی تعلیمات کا حاصل اعلیٰ ترین اور عظیم ترین اور ہر اعتبار سے کامل ترین 
Spiritual Socialism ہے. لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے. دوسرے رُخ کے اعتبار سے اسلام کا نظامِ معیشت یقینا ایک Controlled Capitalism ہے. اس لیے کہ اسلام قانونی و فقہی اعتبار سے افراد کو زمین‘ مکان ‘ ساز و سامان حتیٰ کہ ذرائع پیداوار تک پر ایسا حق تصرف عطا کرتا ہے جو کم از کم ظاہری اعتبار سے حق ملکیت سے کامل مشابہت رکھتا ہے. یہاں تک کہ یہ حق تصرف یا حق ملکیت وراثتاً اولاد و اَحفاد کو منتقل بھی ہو سکتا ہے

. الغرض اپنے قانونی و فقہی نظام میں اسلام نے انسان کے جبلی تقاضوں کو بتمام و کمال ملحوظ رکھا ہے اور نجی ملکیت (private ownership) ‘ ذاتی حوصلہ مندی (personal incentive) اور آزاد معیشت (free-enterprise) کے اصولِ سہ گانہ کو قانونی سطح پر برقرار رکھ کر ’’سرمایہ کاری‘‘ کے لیے وسیع میدان پیدا کر دیا ہے. البتہ اس ضمن میں بعض نہایت اہم ‘بنیادی اور حد درجہ مؤثر احتیاطی تدابیر ایسی اختیار کی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں ’’صحت مند سرمایہ کاری‘‘ کی فضا تو قائم رہے‘ لیکن یہ ’’سرمایہ داری‘‘ کی صورت اختیار نہ کر لے. ان احتیاطی یا تحدیدی تدابیر کے بارے میں تفصیلی بحث میری موجودہ گفتگو کے موضوع سے خارج ہے‘ صرف اشارتاً عرض کر سکتا ہوں کہ سود (interest) ‘ سٹہ (speculation) اور احتکار (hoarding) وغیرہ کی حرمت کی اصل غرض و غایت یہی ہے جو میں نے بیان کی‘ یعنی سرمایہ کاری‘ سرمایہ داری نہ بن جائے‘ اور Capitalism بہرحال controlled رہے‘ البتہ اس حقیقت سے انکار صرف ہٹ دھرمی ہی سے کیا جا سکتا ہے کہ سرمایہ کاری خواہ کتنی ہی پابند کیوں نہ ہو فرق و تفاوت کو لازماً جنم دے گی اور اس سے اغنیاء (haves) اور فقراء (have-nots) کا وجود میں آنا ناگزیر ہے. اس لیے کہ اگر کسی دوڑ میں دس افراد شریک ہوں اور خواہش یہ ہو کہ وہ سب برابر رہیں‘ نہ کوئی آگے بڑھے نہ پیچھے رہے تو اس کی تو ایک ہی صورت ممکن ہے‘ یعنی یہ کہ ان سب کو ایک رسے سے باندھ دیا جائے. بصورتِ دیگر تو لامحالہ کوئی آگے بڑھے گا اور کوئی پیچھے رہ جائے گا! گویااسلام کے قانونی و فقہی نظام میں ’جبری مساوات‘ (forced equality) کا کوئی وجود نہیں ہے. لیکن اتنی ہی بڑی اور اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اسلام کے نظامِ محاصل میں اسی فرق و تفاوت کے مسئلے سے عہدہ برآ ہونے کے مقصد کو اوّلین اور مقدم ترین اہمیت حاصل ہے. یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اغنیاء اور فقراء کی تقسیم کو اعتباری یا عارضی (arbitrary) نہیں رہنے دیا بلکہ اس کے لیے ایک باقاعدہ وباضابطہ حد ِفاصل کھینچ دی ہے جسے اصطلاحِ شرع میں ’’نصاب‘‘ کہتے ہیں‘ جس کا تعین اموال کی تقریباً تمام بڑی بڑی صورتوں میں کر دیا گیا ہے. مثلاً ساڑھے سات تولے یا اس سے زائد سونے کا مالک اغنیاء میں شمار ہو گا اور ساڑھے سات تولے سے کم رکھنے والا فقراء میں سے اور اسلام کے نظام محاصل کا ایک اہم رکن یعنی زکوٰۃ اغنیاء سے لی جائے گی اور فقراء میں تقسیم کر دی جائے گی‘ بقول نبی اکرم تُــؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِھِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ (متفق علیہ) اور اس طرح وہ تمام تقاضے بتمام و کمال اور باحسن وجوہ پورے ہو جاتے ہیں جنہیں اس دور میں ’’اجتماعی ضمانت‘‘ (collective insurance) یا سماجی تحفظ (social security) سے تعبیر کیا جاتاہے. 

اور اس سب پر مستزاد ہے وہ روحانی و اخلاقی اور ایمانی و احسانی تعلیم جو اسلام اپنے ہر ماننے والے اور قرآن اپنے ہر پڑھنے والے کو مسلسل دیتا ہے کہ لذاتِ دنیوی اور تعیش و تنعم سے کنارہ کشی اختیار کرو. اپنی ضروریات کو کم سے کم کرو‘ اور حقیقی اور واقعی ضروریات سے جو بھی زائد ہو‘ اسے اللہ کی راہ میں دے دو اور یہ نہ سمجھو کہ مال میں واحد حق زکوٰۃ ہی ہے. یہ تو کم از کم اور ناگزیر قانونی ضابطہ ہے. ایمان کا اصل تقاضا و مطالبہ اس سے بہت آگے ہے. بموجب فرمانِ نبوی : 
فِی الْمَالِ حَقٌّ سِوَی الزَّکَاۃِ (ترمذی) ’’مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی بہت سے حقوق ہیں‘‘.اور اچھی طرح جان لیجیے کہ نظامِ اسلامی کا اصل حسن و جمال اور اس کی اصل برکات اُس کی اسی دوسری اور تکمیلی تعلیم و تلقین میں مضمر ہیں!!

اسلامی نظم ِمملکت میں نظامِ محاصل کے بارے میں ایک اہم اور اصولی بات اور بھی ہے جو مدنظر رہنی ضروری ہے‘ اور وہ یہ کہ اسلامی ریاست اصلاً ایک نظریاتی ریاست ہے اور اگرچہ اس کی حدود میں بسنے والے تمام شہری بلاامتیازِ مذہب و ملت بعض اعتبارات سے بالکل مساوی بھی ہیں‘ جیسے حرمت جان و مال میں ‘تاہم بہت سے اعتبارات سے شہریوں کا دو حصوں میں منقسم ہونا لازم ولابد ہے. یعنی ایک وہ جو اس نظریے کو ماننے والے ہوں جس پر ریاست قائم ہے اور دوسرے وہ جو اسے نہ مانتے ہوں.چنانچہ اسلام کے نظامِ محاصل کے اعتبار سے بھی ایک اہم اور بنیادی تقسیم اسی اعتبار سے ہے کہ بعض کی ادائیگی صرف مسلمانوں پر ہے ‘یعنی اسلامی ریاست کے اصول و مبادی کے ماننے والوں پر اور بعض کی غیر مسلموں پر یعنی ان پرجو ان اصولوں کو نہیں مانتے. پھر یہ کہ ان دونوں کی نوعیت میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے اور ان کے مداتِ صرف میں بھی اساسی اور بنیادی فرق ہے. چنانچہ مسلمانوں سے نقدی کی تمام صورتوں اور اموالِ تجارت پر زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے جس کی شرح کل مالیت کا اڑھائی فیصد ہے. ان کی زرعی اراضی میں سے نہری یا چاہی زمینوں کی کل پیداوار کا بیسواں حصہ وصول کیا جاتا ہے یعنی پانچ فیصد‘ اور بارانی زمینوں کی پیداوار سے کل کا دسواں حصہ وصول کیا جاتا ہے یعنی دس فیصد اور ان دونوں کی نوعیت ٹیکس کی نہیں ہے بلکہ اصلاً عبادت کی ہے. یہی وجہ ہے کہ ان کی شرح 
بھی بالکل معین ہے جس میں کسی ردّوبدل کی گنجائش نہیں ہے‘ ورنہ ان کی حیثیت عبادت کی نہیں رہے گی بلکہ صرف ایک ٹیکس کی رہ جائے گی. اسی طرح ان کی مداتِ صرف بھی معین ہیں‘ ان کے علاوہ کسی مد میں انہیں صرف نہیں کیا جا سکتا‘ جن کا مجموعی حاصل وہ اجتماعی ضمانت یا سماجی تحفظ ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے!

اس کے برعکس غیر مسلموں کے اموال سے جزیہ وصول کیا جاتا ہے اور ان کی زمینوں سے ’’خراج‘‘ اور ان دونوں کی حیثیت خالصتاً ٹیکس کی ہے. یہی وجہ ہے کہ ان کی کوئی شرح بھی معین نہیں‘ ان کا تعین حکومت وقت کی صوابدید پر ہے اور اسی طرح ان سے حاصل شدہ رقوم کے صرف پر بھی کوئی پابندی نہیں‘ جملہ شعبہ ہائے حکومت کے اخراجات اور نظم و انصرامِ مملکت کے تمام تقاضے ان سے پورے کیے جا سکتے ہیں. 
(۱

اسلامی حکومت کی آمدنی کا ایک اور شعبہ جس کی شرح معین ہے‘ وہ اموالِ خمس ہیں یعنی پانچواں حصہ یا بیس فیصد جو اموالِ غنیمت‘ کنز یعنی دفینے‘ اور رکاز یعنی معدنیات سے وصول کیا جاتا ہے. ان کی جس طرح شرح وصولی زکوٰۃ و عشر کی طرح 
(۱) ایک نہایت اہم اور قوی اور فقہ حنفی کی رو سے نہایت محکم رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان کی جملہ اراضی ’’خراجی‘‘ کے حکم میں ہیں نہ کہ ’’عشری‘‘کے حکم میں. گویا اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کی مزارعت کے مطلقاً حرام ہونے کی رائے کو کسی وجہ سے چھوڑ کر صاحبین یعنی قاضی ابویوسفؒ اور امام محمد شیبانی ؒ کی رائے پر عمل کیا جائے تو بھی پاکستان کی جملہ اراضی کے کاشت کار براہِ راست ریاست پاکستان کے ’’مزارع‘‘ ہوں گے اور ان کا ’’خراج‘‘ براہِ راست خزانہ عامرہ میں جمع ہو گا‘ جس سے taxation کے پورے نظام میں انقلاب آ جائے گا اور غالباً انکم ٹیکس کی تو سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی. اس موضوع پر پروفیسر رفیع اللہ شہاب صاحب کی ایک مختصر تحریر اس کتابچہ کے آخر میں درج کی جا رہی ہے. پروفیسر صاحب اپنے بعض نظریات کی بنا پر ہمارے دینی حلقوں میں شدید ’’متنازعہ‘‘ شخصیت بن چکے ہیں ‘لیکن ہمیں تو ہدایت ہے کہ ’’انظروا الی ما قال ولا تنظروا الی من قال‘‘ یعنی یہ دیکھو کہ کہا کیا جا رہا ہے‘ اسے نظر انداز کر دو کہ کہنے والا کون ہے! لہٰذا اس معاملے میں ان کی رائے پر جملہ اہل علم کو غور کرنا چاہیے. (اسرار احمد) معین ہے اسی طرح مداتِ صرف بھی صرف وہی ہیں جو زکوٰۃ اور عشر کی.اس فہرست میں صرف ایک اور شق کا اگر اضافہ کر لیا جائے تو ایک پہلو سے بات مکمل ہو جائے گی اور وہ یہ کہ زکوٰۃ اور عشر کے علاوہ جو صدقات ِ نافلہ مسلمان اپنی مرضی سے فی سبیل اللہ دیں ان کے بارے میں انہیں اختیار ہے کہ چاہے از خود فقراء و مساکین میں تقسیم کر دیں چاہے اسلامی حکومت کے حوالے کر دیں (بخلاف زکوٰۃ اور عشر کے کہ وہ لازماً حکومت ہی کو ادا کرنے ہوں گے!) اگر وہ ایسی رقوم بھی حکومت کے حوالے کر دیں تو وہ بھی صرف ان ہی مدات میں صرف ہوں گی جن میں زکوٰۃ اور عشر کی رقوم کا صرف جائز ہے.

اس کے بعد نمبر آتا ہے اسلامی حکومت کے عام محاصل کا ‘جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: 

(۱) فے : 
یعنی وہ اموال جو غیر مسلموں سے جنگ کے سوا کسی اور طریق سے حاصل ہوں. اپنی اصل کے اعتبار سے جزیہ اور خراج بھی فے ہی کی قسمیں ہیں‘ لیکن عرفِ عام میں یہ لفظ ان اموال پر بولا جاتا ہے جو حاصل تو متحارب غیر مسلموں (Hostile Non-Muslims) سے ہوئے ہوں‘لیکن ان میں فی الواقع جنگ اور خونریزی کی نوبت نہ آئی ہو. 

(۲) کراء الارض : 
یعنی حکومت کی مملوکہ اراضی سے حاصل شدہ لگان. 

(۳) عشور : 
ی ا درآمدی و برآمدی محصولات جن کے بارے میں ایک زمانے میں شرح کا تعین کچھ اس طرح ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کے اموال میں سے اڑھائی فیصد‘ اسلامی حکومت کے غیر مسلم شہریوں یعنی ذمیوں کے اموال میں سے پانچ فیصد اور دوسرے غیر مسلموں سے دس فیصد لیا جاتا تھا. لیکن یہ شرحیں کسی نص پر مبنی نہیں ہیں اور ان میں بھی کمی بیشی ہوسکتی ہے جس میں ظاہر ہے درآمد و برآمد کے کاروبار کے توازن اور عالمی منڈی کے اتار چڑھائو کو اصل دخل حاصل ہو گا! 

(۴) ضرائب : 
یعنی وہ مزید ٹیکس جو حکومت حسب ِ ضرورت شہریوں پر عائد کر سکتی ہے. عام حالات میں بھی اگر دفاع اور نظم مملکت کی ضروریات اور فقراء کی احتیاجات مندرجہ بالا تمام مدوں سے پوری نہ ہو رہی ہوں اور خاص اور ہنگامی حالات میں بھی‘ جیسے زمانہ ٔجنگ یا قحط سالی یا کسی عمومیdepression کے باعث عام بے روزگاری وغیرہ. ایسی خاص صورتوں میں اسلامی حکومت کو اغنیاء پر ٹیکس لگانے کا غیر محدود اختیار حاصل ہے. 

(۵) اموالِ فاضلہ : 
یعنی متفرق آمدنی جیسے کوئی شہری اگر لاوارث فوت ہو تو اس کی کل جائیداد اسلامی حکومت کی ملکیت قرار پاتی ہے. اسی طرح کوئی مسلمان مرتد ہو جائے تو اس کا کل مال بھی بیت المال میں داخل ہو جاتا ہے اور اگر کوئی غیر مسلم شہری بغاوت کا مرتکب ہو جائے تو اس کی کل میراث بھی اسلا می حکومت کا حق ہے.
 
(۶) اوقاف : 
وقف اگر کسی خاص اور متعین مقصد کے لیے ہوں تو ان کی آمدنی انہی مصار ف پر خرچ ہو گی‘ لیکن اگر کوئی شہری عام فی سبیل اللہ وقف کرتا ہے تو گویا وہ اسلامی حکومت کی ملکیت شمار ہو گا اور اس کی کل آمدنی بیت المال میں شامل کی جائے گی.ان میں سے فے‘ اموالِ فاضلہ اور عام اوقاف تو کل کے کل بیت المال میں داخل ہوں گے‘ جن کے ضمن میں کسی شرح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ البتہ کراء الارض‘ ضرائب اور عشور کی حیثیت taxes کی ہے اور ان کی شرح وقتاً فوقتاً تبدیل کی جا سکتی ہے جیسے بھی ضرورت داعی ہو. اسی طرح ان کی حاصل شدہ آمدنی کے صرف پر بھی کوئی پابندی نہیں. یہ انتظامِ مملکت کے اخراجات اور رفاہِ عامہ‘ عمومی فلاح و بہبود اور public works سب پر خرچ کی جا سکتی ہے. اگرچہ ایک رائے یہ ہے کہ ضرائب اور عشور میں سے بھی جو رقوم مسلمانوں سے حاصل ہوں گی ان کی مدات ِصرف بھی صرف وہی ہوں گی جو زکوٰۃ ‘ عشر اور صدقات کی ہیں.

اس تفصیل سے ایک جانب تو وہ حقیقت بالکل مبرہن ہو گئی جو پہلے عرض کی جا چکی ہے‘ یعنی یہ کہ اسلامی نظم مملکت میں 
taxation کے اعتبار سے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین بڑابنیادی فرق ہے ‘اور یہ فرق فطری بھی ہے اور عقلی و منطقی بھی. اس لیے کہ ایک غیر مسلم کے لیے اسلامی حکومت بس ایک امن و امان اور نظم و نسق قائم رکھنے والے ادارے کی حیثیت رکھتی ہے اور بس! جبکہ ایک مسلمان کے نزدیک اسلامی حکومت زمین پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نمائندہ ہوتی ہے اور اس کا مقصد صرف دنیوی فلاح و بہبود ہی نہیں ہوتا‘ اُخروی فوز و فلاح بھی ہوتا ہے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ قائم ہی ہوتی ہے نظریہ ٔاسلامی کی ترویج واشاعت اور دنیا میں اسلام کی تبلیغ اور غلبہ و اقامت کے لیے. اس لیے اس کی خیر خواہی و وفاداری اور اس کا بقاء و استحکام مسلمان کے عین دین و مذہب کا تقاضا ہے. چنانچہ وہ اس کو اپنی کمائی یا اللہ کے فضل میں سے جو کچھ دیتا ہے اسے عبادت سمجھ کر دیتا ہے. اس کے اس تصور کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے اس حقیقت سے کہ ان کی فرضیت اور شرح ادائیگی اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے ہیں. حکومت وقت صرف جمع کرنے والی (collector) اور تقسیم کرنے والی distributor) ہے نہ کہ عائد کرنے والی. اور عدمِ ادائیگی یا ادائیگی میں کتمان و فریب صرف قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں ہے بلکہ گناہ اور معصیت ہے جس کا وبال ‘ابدی اور اُخروی زندگی میں بھگتنا پڑے گا.

دوسری حقیقت یہ بھی واضح ہو گئی کہ مسلمان شہریوں سے اسلامی حکومت کو جو کچھ وصول ہو اس میں سے اکثر کا اوّلین مصرف اس خلیج کو پاٹناہے جو اسلام کے قانونی و فقہی نظام میں موجود آزاد معیشت کا لازمی نتیجہ ہے ‘خواہ وہ کم ہو یا بیش!

تیسری اہم حقیقت جو دنیا کے دوسرے اکثر نظام ہائے ٹیکسیشن سے مختلف ہے وہ یہ کہ اسلام کا غالب رجحان یہ ہے کہ ٹیکس کے لیے اساس و بنیاد نہ فرد بحیثیت فرد ہو جس پر 
poll یا tax capitation عائد کیا جاتا ہے‘ نہ آمدنی ہو جس پر income tax کی بنیاد ہے‘ نہ وسعت خرچ یا capacity to spend ہو ‘بلکہ کل پیداوار یا ملکیت (total produce or possession) ہو‘جیسا کہ زکوٰۃ یا عشر یا خمس سے ظاہر ہوتا ہے. ٹیکس عائد کرنے کی ان دوسری اساسات کے مقابلے میں اسلام کی اختیار کردہ یہ اساس کن مصلحتوں پر مبنی ہے‘یہ ایک دقیق فنی مسئلہ ہے‘ تاہم اس ضمن میں ایک کوشش تو سید نزہت بخاری صاحب نے اپنے اس مقالے میں کی ہے جس کا ذکر میں آغاز میں بطور لطیفہ کر چکا ہوں. ان کی تحقیق کا لب لباب یہ ہے کہ انکم پر ٹیکس عائد کرنے سے افراطِ زر یا inflation کا رجحان بڑھتا ہے جبکہ ’’total produce or possession‘‘ پر ٹیکس عائد کرنے سے اس کا قلع قمع ہوتا ہے. میں ایک غیر فنی انسان کی حیثیت سے ان کی دلیل کوپورے طو رپر سمجھ نہیں پایا‘ تاہم یہ ایک اہم خیال ہے جو ایک واقف حال شخص نے ظاہر کیا ہے ‘اس پر توجہ دی جانی چاہیے.

میرے سامنے ایک عامی کی حیثیت سے اس کی ایک دوسری اور عظیم تر مصلحت آئی ہے اور وہ یہ کہ آمدنی کا صحیح صحیح حساب رکھنا ’’لانا ہے جوئے شیر کا!‘‘ کا مصداق ہے. اور اس کے لیے بہت لمبے چوڑے اور 
elaborate accounting کی ضرورت ہے‘ جبکہ اسلام کے نظامِ محاصل میں سے اکثر کے لیے اس کی کوئی حاجت نہیں رہتی. اب ظاہرہے کہ بڑے بڑے شراکتی اداروں یا limited companies کے لیے تو تفصیلی حساب کتاب ویسے بھی ناگزیر ہے تاکہ حصہ داروں کے مابین منافع کی تقسیم منصفانہ ہو سکے ‘اور اگر یہ ادارے اپنے حجم (size) کے اعتبار سے اس accounting پر زرِکثیر صرف کریں تو کوئی زیادہ بار بھی نہ ہو گا. لیکن آبادی کی عظیم اکثریت جو چھوٹے چھوٹے کاروبار لیے بیٹھی ہے اس کے لیے حساب کتاب کا یہ معاملہ خالص دردِ سر بھی ہے اور محض ضیاع بھی. یہ معاملہ چھوٹے چھوٹے دکانداروں ہی کا نہیں ہے‘ ہمارے درمیانی طبقے کی عظیم اکثریت کا ہے. آپ ایک ڈاکٹر کا تصور کریں جو روزانہ اوسطاً سو ڈیڑھ سو مریض دیکھتا ہے‘ اب اگر وہ اپنی آمدنی کا صحیح صحیح حساب رکھنا چاہے اور وہ بھی ایسا جو انکم ٹیکس آفیسر کے نزدیک ’’قابل تصدیق‘‘ ہو تو اسے ہر مریض کا نام اور اس کو روزانہ دی جانے والی ادویات کی تفصیل کے علاوہ ادویات کی خرید وفروخت کا پورا حساب اور ان کا مکمل سٹاک اکاؤنٹ رکھنا ضروری ہو گا جس کے لیے ایک کلرک اور ایک اکائونٹینٹ کی خدمات لازمی ہیں. اور ان سب پر جو خرچ آئے گا وہ خالص non-productive ہو گا. وقِس علٰی ذٰلک. اس کے برعکس اسلام کے نظامِ محاصل میں اس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے. ہر شخص سال کے آخر میں اپنی مالی حالت کا حساب بآسانی کر سکتا ہے اور اس پر زکوٰۃ ادا کر سکتا ہے. 

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ ربِّ الْعَالَمِیْنَ!