نحمَدہٗ ونُصَلّی علٰی رسولہِ الکریم

یہ کتابچہ معراج النبی علٰی صاحبہ الصَّلاۃ والسَّلام کے متعلق محترم ڈاکٹر اسرار احمد کے ایک خطاب پر مشتمل ہے جو موصوف نے قریباً دو سال قبل ۲۷/رجب المرجب کو فرمایا تھا. اس کو کیسٹ سے منتقل کر کے معمولی حک و اضافہ کے بعد ماہنامہ میثاق لاہور کے مئی ۱۹۸۳ء کے شمارے میں شائع کیا گیا تھا. الحمد للہ والمنہ کہ اس خطاب نے قبول عام حاصل کیا اور عوام و خواص نے ڈاکٹر صاحب موصوف کو ان کے طرزِ استدلال پر خراج ِتحسین پیش کیا.

نام نہاد عقلیت پرستی کے اس دور میں یگانوں اور بیگانوں نے قرآن و حدیث میں وارد شدہ معجزات اور خرق ِعادت واقعات کی ایسی عقلی توجیہہ کرنے کی جسارت کی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث کی صریح نصوص کے بخیے ادھیڑے گئے ہیں ‘بلکہ اللہ تعالیٰ کے ’’عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ‘‘ ہونے کا تصور بھی مجروح ہوتاہے.لہذا یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس بات کوواضح کیا جائے کہ اس کارگاہِ عالم میں جو طبعی قوانین نافذ ہیں وہ از خود نافذ نہیں بلکہ ہر آن اور ہر لحظہ خالق و فاطر کائنات خود ان کی تدبیر فرمارہا ہے. وہ صاحب ِاختیار ہے‘ جب چاہے ان قوانین طبیعیہ کو معطل فرما سکتا ہے.

اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو جزائے خیر دے اور مزید قرآن فہمی سے نوازے کہ انہوں نے اس خطاب میں اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ قرآن و حدیث سے ثابت کیا ہے کہ نبی اکرم کو جسد اقدس کے ساتھ ہی معراج کی سعادت عطا ہوئی تھی. ساتھ ہی عقلی دلائل سے بھی اس محیر العقل واقعہ کے استبعاد کو دور کرنے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے‘ جس کے متعلق کچھ تجدد پسند دانشوروں نے غلط فہمیاں اور مغالطے پیش کر کے ریب و تشکیک کے کانٹے اذہان میں پیدا کر رکھے ہیں.

توقع ہے کہ یہ مختصر کتابچہ ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کا‘ ان شاء اللہ‘ ذریعہ بنے گا جو اپنے اور پرائے دونوں ہی ہماری موجودہ تعلیم یافتہ نسل میں پھیلانے کی مذموم کوشش کرتے رہتے ہیں.
اللّٰہُمَّ اَلْھِمْنَا رُشْدَنَا وَاَعِذْنَا مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا 

احقر : جمیل الرحمن
مارچ۱۹۸۴ء

اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم
بِسمِ اللہِ الرّحمٰنِ الرَّحِیمِ
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾ (الاسراء)
مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿۱۱﴾اَفَتُمٰرُوۡنَہٗ عَلٰی مَا یَرٰی ﴿۱۲﴾وَ لَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۱۳﴾عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی ﴿۱۴﴾عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۱۵﴾اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۶﴾مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ﴿۱۷﴾لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۸﴾ (النجم) 

بِسمِ اللہِ الرّحمٰنِ الرَّحِیمِ
خطبۂ مسنونہ اور تلاوتِ آیات کے بعد :

آج سے چودہ سو چھ (۱۴۰۶) برس قبل ۲۷؍ رجب کی ایک شب وہ محیر ّالعقول واقعہ پیش آیا تھا جسے ہم ’’معراج‘‘ کے نام سے جانتے ہیں. معراج کے بارے میں کتب احادیث میں جو روایات ملتی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عظیم واقعہ ہجرتِ مدینہ سے ڈیڑھ سال قبل پیش آیا جب کہ نبی اکرم کی عمر شریف قریباً باون برس تھی.