اب ظاہر بات ہے کہ انبیاء و رُسل کو جو یقین دوسروں تک منتقل کرنا ہے اس کے پیش نظر ان کا اپنا یقین و ایمان اگر حق الیقین کے درجے تک نہ پہنچا ہو اور ان کے اپنے تجربے اور احساس کا جزو نہ بن چکا ہو تو مطلوب حاصل نہیں ہوسکتا. پھر یقین کی وہ کیفیت پیدا نہیں ہوسکتی کہ وہ مجسم ّایمان و یقین بن جائیں کہ ان کی شخصیتوں سے یقین متعدی ہورہا ہو‘ پھیل رہا ہو. اس کے لیے ان کا تجربہ‘ ان کا معائنہ اور ان کا مشاہدہ اگر نہ ہو تو یقین کا وہ درجہ کبھی پیدا نہیں ہوسکتا کہ ان کی شخصیتوں سے یقین متعدی ہوجائے‘ لوگوں تک پہنچے. جیسے اگر آگ کی بھٹی ہو تو اس سے حرارت خود بخود نکلتی ہے اور دوسروں تک پہنچ جاتی ہے. یہ ہے اصل میں وہ سبب جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ عالمِ ملکوت کے مشاہدات انبیاء و رسل کو کراتا ہے. یہ مکاشفات کی شکل میں بھی ہوئے ہیں‘ یہ رؤیا کی شکل میں بھی ہوئے ہیں. یہ حالت ِ نوم میں بھی ہوئے ہیں‘ حالت ِ بیداری میں بھی ہوئے ہیں اور ان دونوں یعنی خواب و بیداری کی درمیانی کیفیت میں (بَینَ النَّوم وَالیَقظۃ) بھی ہوئے ہیں. اس میں کچھ چیزوں کو ممثّل کرکے بھی دکھایا گیا ہے. بعض حقائق کا براہِ راست مشاہدہ کرایا گیا ہے. جیسے جیسے مراتب ہیں ویسے ویسے ہی ان تجربات و مشاہدات کا معاملہ ہے. سورۃ الانعام کی آیت ۷۵ میں فرمایا گیا:
وَ کَذٰلِکَ نُرِیۡۤ اِبۡرٰہِیۡمَ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿۷۵﴾
’’اور اسی طرح ہم ابراہیم کو دکھاتے رہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظام تاکہ وہ پوری طرح یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے.‘‘
’’ملَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ‘‘ یعنی اس کائنات کی خفیہ حکومت کا جو انتظام و انصرام ہے‘ اس کے جو کارندے ہیں‘ اس کی جو سول سروس ہے ‘یعنی ملائکہ‘ جو لوگوں کی نگاہوں سے مخفی ہیں. ملائکہ تو ہر جگہ موجود ہیں‘ ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ہیں‘ کرامًا کاتبین موجود ہیں لیکن وہ مخفی ہیں. وہ غیب میں ہیں یا ہم ان سے غیب میں ہیں. اس عالم کا ابراہیم علیہ السلام کو مشاہدہ کرایا جاتا رہا ہے. آسمانوں اور زمین کی اس خفیہ حکومت‘ اس غیبی حکومت کے رموز و اسرار اور معاملات دکھائے جاتے رہے ہیں اس آیت کا آخری ٹکڑا میری اس گفتگو کے اعتبار سے بہت اہم ہے:
وَ لِیَکُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿۷۵﴾
’’تاکہ وہ (یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام ) اصحابِ یقین میں سے بن جائے‘‘.
ایمان تو محض خبر کی بنیاد پر بھی ہے‘ لیکن میں نے یقین کا جو بلند ترین درجہ عرض کیا ہے وہ مشاہدے اور ذاتی تجربے کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے. اس بلند ترین درجے کا یقین انبیاء و رسل کو دینا مقصود ہوتا ہے ‘لہذا انہیں یہ مشاہدات و تجربات کرائے جاتے ہیں.
البتہ جیسے نبوت و رسالت کے سلسلے کی تکمیل نبی اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی پر ہوئی ہے‘ اسی طرح ان مشاہدات کے بارے میں بھی چوٹی کا مشاہدہ اور ذاتی تجربات کے ضمن میں بھی بلند ترین تجربہ وہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کو ہوا‘ جسے ہم معراج کے نام سے جانتے ہیں. لیکن نبی اکرمﷺ کے بارے میں یہ بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ واحد تجربہ نہیں ہے‘ آپؐ کو بے شمار تجربات ہوئے ہیں.
آپؐ صلوٰۃِ استسقاء پڑھا رہے ہیں اور جنت آپؐ کے سامنے لے آئی گئی اور بے اختیار آپؐ کا ہاتھ اُٹھا اور آگے بڑھا تاکہ آپ جنت کے کسی درخت کا پھل یا میوہ توڑ لیں. یہ ہاتھ کا اُٹھنا اور بڑھنا ایک غیر اختیاری عمل تھا. اس نوع کے عمل میں کسی ارادے کو دخل نہیں ہوتا. پھر جہنم سامنے لے آئی گئی اور آپؐ بے اختیار اس کی حرارت‘ اس کی گرمی‘ اس کی دہشت سے اچانک پیچھے ہٹے. یہ تمام تجربہ نماز میں ہورہا ہے‘ عالم بیداری میں ہورہا ہے. حضورﷺ خلوت میں نہیں ہیں‘ مجمع میں ہیں‘ وہاں ہورہا ہے. مختصراً یہ کہ ہم ان مشاہدات کا احاطہ کر ہی نہیں سکتے جو جناب محمد ٌرسول اللہ ﷺ کو ہوئے.