اس ضمن میں اِس دور میں‘ جو عقلیت پرستی کا دور ہے اور جسے "18th Century Rationalism" کہا جاتا ہے‘ مغرب میں فکرِ انسانی کئی قلابازیاں کھا چکا ہے‘ لیکن مشرق کے کچھ مفکرین ہیں جو ابھی تک اٹھارہویں صدی ہی کے "Rationalism" کو بیٹھے چاٹ رہے ہیں. حالانکہ اٹھارہویں صدی کی وہ عقل پرستی مغرب میں ختم ہوچکی ہے‘ سائنس کے صغریٰ کبریٰ اور مقدمات و متعلقات (premises) تبدیل ہو چکے ہیں‘ اصول و مبادی بدل چکے ہیں‘ لیکن علامہ اقبال کے اس مصرعے کے مصداق کہ ع ’’وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ‘ یہاں بدلتا نہیں زمانہ!‘‘ ہمارے یہاں کچھ لوگ ہیں جو ابھی تک نیوٹونین فزکس(Newtonion Physics) کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھے ہیں. اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک معراج کا واقعہ محالات اور ناممکنات میں سے ہے. میں اسی لیے کہا کرتا ہوں کہ اگر سرسید احمد خان مرحوم نے ٹھوکر کھائی تو وہ قابل ِرحم اور معذور ہیں‘ وہ آج سے سوسوا سو سال پہلے کے انسان ہیں. وہ جس سائنس کی عقل پرستی سے مرعوب تھے اس سائنس کے‘ جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا‘ مقدمات (premises) بدل گئے. لیکن تعجب اور حیرت تو ان لوگوں کی حالت پر ہوتی ہے جو سرسید کے فکر پر آج بھی اپنی دکانیں چمکا رہے ہیں. یہ مقلدمحض ہیں. ان کے پاس تو درحقیقت عقل ِعام نام کی شے بھی نہیں ہے کہ ان کو اندازہ ہو کہ ہم کس دور میں سو ڈیڑھ سو سال پہلے کی عقلیت پرستی کی بات کررہے ہیں.
آج کا دور آئن سٹائن کی فزکس کا دور ہے. ڈیڑھ دو سو سال پہلے کی فزکس کے مقدمات تبدیل ہوچکے ہیں. اب مادّہ (matter) حتمی‘ قطعی اور ناقابلِ تردید اور مستحکم نہیں رہا. اب سائنس یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نظری اعتبار سے تسلیم کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی مادی جسم نور کی رفتار کے ساتھ حرکت کرے گا تو اس کے لیے وقت نہیں گزرے گا. حساب نے یہ ثابت کردیا ہے‘ اگرچہ ابھی ہم اس کا صحیح تصور نہیں کرسکتے. سب سے زیادہ رفتاریں انسان کے سامنے دو تھیں. ایک آواز کی رفتار اور دوسری روشنی کی رفتار. آواز کی رفتار سے تو انسان آگے گزر گیا ہے. پہلے بندوق کی گولی آواز سے تیز جاتی تھی. گولی پہلے لگتی تھی‘ آواز بعد میں آتی تھی. لیکن اب تو سپر سانک جیٹس ہیں. آواز سے کہیں زیادہ ان کی اپنی رفتار ہے. اب صرف ایک رفتار رہ گئی ہے اور وہ ہے نور یا روشنی کی رفتار. اگرچہ ایک مادی جسم کے لیے اس رفتار تک پہنچنا یا اس سے تیز سفر کرنا عموماً ناممکن قرار دیا جاتا ہے‘ تاہم طبیعیات کے حلقوں میں یہ امور اب اس قدر محال نہیں سمجھے جاتے جتنے یہ ایک صدی پہلے تھے. صرف فرق ہے انسانی قدرت اور اللہ کی قدرت کا جس کی طرف اشارہ کرکے بات شروع کی گئی کہ سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا ’’پاک ہے وہ ذات جو راتوں رات لے گئی اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک.‘‘