آگے چلئے‘ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: ثُمَّ صَعِدَ بِیْ اِلَی السَّمَاءِ الثَّالِثَۃِ‘ فَاسْتَفْتَحَ‘ قِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ‘ قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ (صلی اللہ علیہ وسلم)، قِیْلَ وَقَدْ اُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ‘ قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖ‘ فَنِعْمَ الْمَجِیْئُ جَاءَ‘ فَفَتَحَ‘ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا یُوْسُفُ‘ قَالَ: ھٰذَا یُوْسُفُ‘ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ‘ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ‘ فَرَدَّ‘ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِـحِ یعنی تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور وہی مکالمہ ہوا.
اسی طرح چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے‘ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر حدیث میں اس طرح ہے کہ سلام کے تبادلہ کے بعد فَلَمَّا جَاوَزْتُہُ بَکٰی ’’جب میں آگے جانے لگا تو موسٰی ؑرونے لگے‘‘. قِیْلَ لَـہٗ مَا یُـبْکِیْکَ؟ ’’ان سے پوچھا گیا: آپ کو کیا چیز رلا رہی ہے؟‘‘ قَالَ: اَبْکِیْ‘ لِاَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِیْ یَدْخُلُُ الْجَنَّۃَ مِنْ اُمَّتِہٖ اَکْثَرُ مِمَّنْ یَدْخُلُھَا مِنْ اُمَّتِیْ ’’موسیٰؑ نے کہا کہ مجھے اس بات پر رونا آرہا ہے کہ یہ جوان (محمدﷺ ) جن کی بعثت میرے بہت بعد ہوئی ہے (اس کے باوجود) ان کی امت سے جنت میں داخل ہونے والوں کی تعداد میری امت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگی‘‘. وہ شفقت و الفت جو کسی نبی کو اپنی امت سے ہونی چاہیے یہ اس کا بکمال و تمام اظہار ہے. اسے معاذ اللہ کسی حسد پر محمول نہ کرلیجئے گا‘ بلکہ یہ اپنی امت کی محرومی کا احساس ہے جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ کیفیت طاری ہوئی.
ثُمَّ صَعِدَ بِیْ اِلَی السَّمَاءِ السَّابِعَۃِ… ’’پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا‘‘. وہاں بھی داخلہ کے لیے فرشتوں سے مکالمہ ہوا.اس آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی. فَلَمّا خَلَصْتُ فَاِذَا اِبْرَاھِیْمُ‘ قَالَ: ھٰذَا اَبُوکَ اِبرَاھِیْمُ‘ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ‘ فَسَلَّمْتُ عَلَیہِ‘ فَرَدَّ السَّلَامَ‘ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ ’’پھر جب میں داخل ہوا تو وہاں حضرت ابراہیم( علیہ السلام ) تھے. جبریل نے کہا: یہ آپ کے جد حضرت ابراہیم ہیں‘ انہیں سلام کیجئے‘ چنانچہ میں نے انہیں سلام کیا‘ جواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی سلام کہا او ران الفاظ سے میرا استقبال کیا: خوش آمدید ہو صالح بیٹے اور صالح نبی کے لیے.‘‘
ثُمَّ رُفِعْتُ اِلٰی سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی ’’پھر مجھے اور بلند کیا گیا سدرۃ المنتہیٰ تک‘‘.یہاں نوٹ کیجئے ’’صَعِدَ بِیْ‘‘ کی جگہ ’’رُفِعْتُ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے. اور یہی سدرۃ المنتہیٰ ہے‘ جس کا ذکر سورۃ النجم میں ہوا ہے.