واقعۂ معراج . حدیث ِنبویؐ کے آئینے میں

اب میں چاہتا ہوں کہ پورا واقعہ ٔمعراج آپ کو اس حدیث کے حوالے سے سنادوں جو متفق علیہ ہے. میں خود بیان کروں گا تو کچھ نہ کچھ کمی بیشی کا احتمال ہے. یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ واقعۂ معراج اپنی پوری تفاصیل کے ساتھ حدیث کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہے اور حدیث بھی دوسرے یا تیسرے طبقے کی کتابوں میں نہیں ہے‘ بلکہ متفق علیہ ہے‘ جس کا پایہ‘ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں‘ روایت اور سند کے اعتبار سے تقریباً قرآن مجید کے برابر ہے. اس حدیث کے راوی حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ ہیں. ان کے بارے میں ایک بڑی اہم بات نوٹ کرلیجئے کہ یہ انصاری صحابی ہیں اور ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہیں جنہیں حدیث بیان کرنے کا زیادہ شوق نہ رہا ہو. غالباً یہ واحد حدیث ہے جو ان سے مروی ہے. ان کو اس حدیث سے نہایت شغف تھا‘ انہوں نے اس کو نہایت محبت کے ساتھ محفوظ کیا تھا اور اس کے ایک ایک لفظ کی حفاظت کی تھی. چنانچہ بعض دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جنہوں نے خود نبی اکرم سے یہ واقعہ سنا ہوا تھا‘ جیسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ‘ وہ بھی ان کی خدمت میں خاص طور پر حاضر ہوکر اس روایت کو سنتے تھے. اس لیے کہ اس روایت میں انؓ کا درجہ بہت بلند ہے. اس حدیث کو امام بخاریؒاپنی صحیح بخاری میں ’’عن قتادۃ عن أنس بن مالک عن مالک بن صعصعۃ‘‘ کی اسناد سے روایت کرتے ہیں. مسلم شریف میں یہ روایت حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے براہِ راست مروی بھی موجود ہے. ہم اس روایت کا لفظ بہ لفظ مطالعہ کرتے ہیں. اس سے ‘ان شاء اللہ العزیز ‘اس ضمن میں بہت سے اشکالات دور ہوجائیں گے. حدیث یہ ہے:

عَنْ مَالِکِ بْنِ صَعْصَعَۃَ ؓ اَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ  حَدَّثَھُمْ عَنْ لَـیْلَۃٍ اُسْرِیَ بِہٖ ’’حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی  نے خود ہمیں وہ حالات و واقعات سنائے جو اُس رات کوپیش آئے‘ جس رات آپؐ کو لے جایا گیا ‘‘.یعنی واقعۂ معراج بیان فرمایا. اب دیکھئے‘ یہ مرفوع حدیث ہوگئی. آگے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے ارشاد فرمایا: بَیْنَمَا اَنَا فِی الْحَطِیْمِ - ورُبَّمَا قَالَ فِی الْحِجْرِ - مُضْطَجِعًا اِذْ اَتَانِیْ آتٍ ’’اس اثنا میں کہ میں حطیم یا شاید حجر کا لفظ ارشاد فرمایا (حجر بھی حطیم کے ایک حصے کو کہتے ہیں) میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میرے پاس ایک آنے والا آیا‘‘. یہ آنے والے کون ہیں؟ یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں‘ یہ آگے واضح ہوجائے گا. فَشَقَّ مَابَیْنَ ھٰذِہٖ اِلٰی ھٰذِہٖ [مِنْ ثُغْرَۃِ نَحْرِہٖ اِلٰی شِعْرَتِہٖ] فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِیْ ’’حضور نے اشارہ فرمایا کہ ’’اُس نے یہاں سے وہاں تک میرا سینہ چاک کیا[یعنی حلق کے گڑھے سے لے کر ناف تک] پھر میرا دل نکالا.‘‘ ثُمّ اُتِیْتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَھَبٍ مَمْلُوْئَ ۃٍ اِیْمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِیْ ’’پھر ایک سنہری طشت لایا گیا جو ایمان سے بھرا ہوا تھا‘ پھر اس سے میرا دل دھویا گیا‘‘. وفی روایۃٍ: ثُمَّ غُسِلَ الْبَطْنُ بِمَائِ زَمْزَمََ ثُمَّ مُلِیَٔ اِیْمَانًا وَحِکْمَۃً اور ایک روایت میں آتا ہے کہ ’’اسی طرح پیٹ کو بھی زمزم سے دھویا گیا اور اس میں ایمان و حکمت بھردیے گئے‘‘. ثُمَّ اُتِیْتُ بِدَابَّۃٍ‘ دُوْنَ البَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ‘ اَبْیَضَ‘ یُقَالُ لَـہُ الْبُرَاقُ ’’پھر میرے پاس ایک چوپایہ لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا‘ وہ بالکل سفید تھا‘ اس کا نام ُبراق ہے‘‘. یَضَعُ خَطْوَہٗ عِنْدَ اَقْصٰی طَرْفِہٖ ’’اس کا ہر قدم‘ اس کی حد ِنگاہ تک پڑتا تھا‘‘. فَحُمِلْتُ عَلَیْہِ ’’پس مجھے اس پر سوار کیا گیا‘‘. فَانْطَلَقَ بِیْ جِبْرِیْلُ’’اور جبرائیل ؑمیرے ساتھ چلے‘‘. اب یہاں نام کے ساتھ صراحت ہوگئی کہ آنے والے حضرت جبرائیل ؑتھے. حَتیّٰ اَتَی السَّمَاءَ الدُّنْیَا ’’یہاں تک کہ وہ آسمانِ دنیا تک پہنچ گئے‘‘. یعنی یہ پہلا آسمان جو ہمیں نظر آتا ہے. 

اس روایت میں سفرمعراج کے زمینی حصہ کا ذکر نہیں ہوا. سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت اور دوسری روایات جوڑ کر اس خلا کو ُپر کیا جاتا ہے. آپ کے سفر معراج کا پہلا حصہ زمینی سفر پر مشتمل ہے. یعنی پہلے آپ مسجد اقصیٰ تک پہنچے ہیں. ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں نے اپنی سواری براق کو اُس جگہ باندھا جہاں انبیاء اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے. مسجد میں بہت سے لوگ نماز کے لیے جمع تھے. میں منتظر تھا کہ کون امامت کرائے گا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آگے کیا‘ میں نے نماز پڑھائی اور پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مجھے بتایا کہ آپؐ کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والے وہ تمام انبیاء ہیں جو دنیا میں مبعوث ہوئے اور آج آپؐ نے ان سب کی امامت کی‘‘. یہ علامت ہے نبی اکرم کے سید الانبیاء والمرسلین ہونے کی. پھر یہاں سے آسمانی سفر کا آغاز ہوا. 

اب پھر اسی روایت کا سلسلہ جوڑتے ہیں جو بیان ہورہی تھی. حضور حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچے تو حضرت جبرائیل ؑنے دستک دی. فَاسْتَفْتَحَ ’’پس اُس نے دروازہ کھلوانا چاہا‘‘. فَقِیْلَ: مَنْ ھٰذا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ ’’توپوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جبرائیل‘‘. قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ ’’پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟‘‘ یہاں یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ آسمانِ اوّل کے دروازے پر تعینات فرشتوں کو معلوم ہو‘ پھر بھی پوچھ رہے ہوں. قانون قانون ہے‘ لہذا دروازے پر دستک دینی ہوگی اور شناخت کرانی ہوگی. کوئی جج اپنے علم کی بنیاد پر کبھی فیصلہ نہیں دے گا. فیصلہ تو مقدمے کی سماعت اور شہادتوں کی بنیاد پر ہی ہوگا. کسی جج کو کسی واقعے کا ذاتی علم ہے تو بھی اسے مقدمہ کسی عدالت کو منتقل کرنا ہوگا اور وہاں گواہ کی حیثیت سے پیش ہونا ہوگا. پس قانون قانون ہے. ’’پوچھا گیا ساتھ کون ہے؟‘‘ قَالَ: مُحَمَّدٌ ’’حضرت جبرائیل ؑ نے جواب دیا محمد( )‘‘. قِیلَ: وَقَدْ اُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ ’’پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں‘‘. قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖ‘ فَنِعْمَ الْـمَجِیْئُ جَائَ‘ فَفَتَحَ ’’اس کے بعد کہا گیا: مرحبا ہے ان کے لیے (تہنیت ہے‘ مبارک باد ہے‘ خوش آمدید ہے) کیا ہی اچھے ہیں جولائے گئے ہیں. پھر سماءِ دنیا کا دروازہ کھولا گیا‘‘. فَلَمَّا خَلَصْتُ فاِذَا فِیْھَا آدَمُ ’’پھر جب میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا وہاں آدم( علیہ السلام ) تشریف فرما ہیں‘‘. فَقَالَ: ھٰذَا اَبُوْکَ آدَمُ‘ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ‘ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ ’’جبرائیل ؑ نے کہا: یہ آپؐ کے جدامجد حضرت آدمؑ ہیں‘ پس آپؐ ان کو سلام کیجئے‘ تو میں نے ان کو سلام کیا‘‘. فَرَدَّ السَّلَامَ‘ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ ’’انہوں نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: خوش آمدید ہے‘ (تہنیت ہے) صالح بیٹے اور صالح نبی کے لیے.‘‘ 

ثُمَّ صَعِدَ بِیْ حَتّٰی اَتَی السَّمَاءَ الثَّانِیَۃَ ’’پھر جبرائیل مجھے لے کر اور اوپر گئے یہاں تک کہ دوسرے آسمان تک پہنچ گئے‘‘. یہاں بھی وہی سوال و جواب ہوئے. فَاسْتَفْتَحَ‘ قِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ جِبْرِیلُ‘ قِیلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَال: مُحَمَّدٌ ( ) قِیلَ: وَقَدْ اُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ‘ قِیلَ: مَرْحَبًا بِہٖ فَنِعْمَ الْمَجِیْئُ جَاءَ‘ فَفَتَحَ اس ساری عبارت کا ترجمہ ہم پہلے کرچکے ہیں. فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا یَحْیٰی وَعِیْسٰی وَھُمَا ابْنَا خَالَۃٍ‘ قَالَ: ھٰذَا یَحْیٰی وَعِیسٰی‘ فَسَلِّمْ عَلَیْھِمَا‘ فَسَلّمْتُ‘ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا: مَرْحَبًا بِالْاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ ’’پھر جب میں (دوسرے آسمان میں) داخل ہوا تو وہاں یحییٰ اور عیسیٰ ( علیہما السلام)تھے اور یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں. جبریل ؑ نے کہا: یہ یحییٰ اور عیسیٰ ہیں‘ ان کو سلام کیجیے ‘ تو میں نے سلام کیا. انہوں نے مجھے سلام کا جواب دیا اورکہا: خوش آمدید‘ مرحبا صالح بھائی اور صالح نبی کو‘‘. یہاں غور کیجئے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے حضور کا استقبال ’’بیٹا‘‘ کہہ کر کیا‘ جبکہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام نے ’’بھائی‘‘ کہہ کر خیر مقدم کیا . یہ اس لیے کہ حضرت آدم علیہ السلام تو کل ُبنی نوع ِانسان کے جد امجد ہیں‘ جبکہ حضرت یحییٰ و عیسیٰ علیہما السلام بنی اسرائیل میں سے ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں‘ چنانچہ وہ بیٹا کہنے کے بجائے ’’بھائی‘‘ کہتے ہیں. اسی طرح آگے حضرات یوسف‘ موسیٰ اور ہارون علیہم السلام آپ  کو بھائی کہیں گے اور آگے حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹا کہیں گے‘ کیونکہ آنحضور ان کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں. 

آگے چلئے‘ نبی اکرم  فرماتے ہیں: ثُمَّ صَعِدَ بِیْ اِلَی السَّمَاءِ الثَّالِثَۃِ‘ فَاسْتَفْتَحَ‘ قِیْلَ: مَنْ ھٰذَا؟ قَالَ: جِبْرِیْلُ‘ قِیْلَ: وَمَنْ مَعَکَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ (صلی اللہ علیہ وسلم)، قِیْلَ وَقَدْ اُرْسِلَ اِلَیْہِ؟ قَالَ: نَعَمْ‘ قِیْلَ: مَرْحَبًا بِہٖ‘ فَنِعْمَ الْمَجِیْئُ جَاءَ‘ فَفَتَحَ‘ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَاِذَا یُوْسُفُ‘ قَالَ: ھٰذَا یُوْسُفُ‘ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ‘ فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ‘ فَرَدَّ‘ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِـحِ یعنی تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور وہی مکالمہ ہوا. 

اسی طرح چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے‘ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر حدیث میں اس طرح ہے کہ سلام کے تبادلہ کے بعد فَلَمَّا جَاوَزْتُہُ بَکٰی ’’جب میں آگے جانے لگا تو موسٰی ؑرونے لگے‘‘. قِیْلَ لَـہٗ مَا یُـبْکِیْکَ؟ ’’ان سے پوچھا گیا: آپ کو کیا چیز رلا رہی ہے؟‘‘ قَالَ: اَبْکِیْ‘ لِاَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِیْ یَدْخُلُُ الْجَنَّۃَ مِنْ اُمَّتِہٖ اَکْثَرُ مِمَّنْ یَدْخُلُھَا مِنْ اُمَّتِیْ ’’موسیٰؑ نے کہا کہ مجھے اس بات پر رونا آرہا ہے کہ یہ جوان (محمد ) جن کی بعثت میرے بہت بعد ہوئی ہے (اس کے باوجود) ان کی امت سے جنت میں داخل ہونے والوں کی تعداد میری امت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوگی‘‘. وہ شفقت و الفت جو کسی نبی کو اپنی امت سے ہونی چاہیے یہ اس کا بکمال و تمام اظہار ہے. اسے معاذ اللہ کسی حسد پر محمول نہ کرلیجئے گا‘ بلکہ یہ اپنی امت کی محرومی کا احساس ہے جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ کیفیت طاری ہوئی. 

ثُمَّ صَعِدَ بِیْ اِلَی السَّمَاءِ السَّابِعَۃِ… ’’پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا‘‘. وہاں بھی داخلہ کے لیے فرشتوں سے مکالمہ ہوا.اس آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی. فَلَمّا خَلَصْتُ فَاِذَا اِبْرَاھِیْمُ‘ قَالَ: ھٰذَا اَبُوکَ اِبرَاھِیْمُ‘ فَسَلِّمْ عَلَیْہِ‘ فَسَلَّمْتُ عَلَیہِ‘ فَرَدَّ السَّلَامَ‘ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْاِبْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ ’’پھر جب میں داخل ہوا تو وہاں حضرت ابراہیم( علیہ السلام ) تھے. جبریل نے کہا: یہ آپ کے جد حضرت ابراہیم ہیں‘ انہیں سلام کیجئے‘ چنانچہ میں نے انہیں سلام کیا‘ جواب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی سلام کہا او ران الفاظ سے میرا استقبال کیا: خوش آمدید ہو صالح بیٹے اور صالح نبی کے لیے.‘‘

ثُمَّ رُفِعْتُ اِلٰی سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی ’’پھر مجھے اور بلند کیا گیا سدرۃ المنتہیٰ تک‘‘.یہاں نوٹ کیجئے ’’صَعِدَ بِیْ‘‘ کی جگہ ’’رُفِعْتُ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے. اور یہی سدرۃ المنتہیٰ ہے‘ جس کا ذکر سورۃ النجم میں ہوا ہے.