ہماری شاعری میں بے انتہا مبالغے ہوجایا کرتے ہیں. علامہ اقبال جو کچھ بھی تھے بہرحال شاعر بھی تھے اور شاعری میں مبالغہ لازماً ہو جاتا ہے‘ لہذا کہتے ہیں : ؎ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب بدء الخلق وکتاب تفسیر القرآن وکتاب التوحید. باب قول اللّٰہ تعالٰی یریدون ان یبدلوا کلام اللّٰہ. وصحیح مسلم‘ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا.

موسیٰ ز ہوش رفت بیک جلوۂ صفات
تو عینِ ذات می نگری و تبسمی!

یعنی ’’موسیٰ علیہ السلام تو ایک جلوۂ صفات ہی کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے تھے خَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا جبکہ آپؐ عین ذات کا مشاہدہ کررہے ہیں اور تبسم فرمارہے ہیں‘‘. میرے نزدیک یہ مبالغہ ہے‘ عین ذات کے مشاہدے کا ذکر نہ قرآن میں ہے‘ نہ حدیث میں. تاہم اس ضمن میں اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے چلا آرہا ہے. یہ اختلاف سلف میں بھی ہے اور خلف میں بھی.لہذا کوئی یہ رائے رکھنا چاہے کہ حضور نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا تھا تو رکھے. میں نے آغازہی میں واضح کردیا تھا کہ اس واقعۂ معراج کا بالکلیہ انکار کفر ہوگا‘ لیکن تفصیلات اور توجیہات و تاویلات کا اختلاف کفر نہیں ہے. بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ شب ِ معراج میں حضور نے اللہ کو دیکھا‘ براہِ راست دیدارِ الٰہی ہوا. لیکن زیادہ قوی رائے یہ ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کا براہِ راست مشاہدہ نہیں ہوا. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے جب ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’نُورٌ اَنّٰی یُرٰی؟‘‘ یعنی ’’اللہ تو ایک نور ہے‘ اسے دیکھا کیسے جاسکتا ہے؟‘‘ آپ نور کے ذریعے سے کسی اور شے کو دیکھتے ہیں‘ نور تو نور ہے‘ اس کو کہاں دیکھا جاسکتا ہے! نوٹ کیجئے کہ قرآن مجید میں بھی فرمایا گیا: 

اِذۡ یَغۡشَی السِّدۡرَۃَ مَا یَغۡشٰی ﴿ۙ۱۶﴾مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی ﴿۱۷﴾لَقَدۡ رَاٰی مِنۡ اٰیٰتِ رَبِّہِ الۡکُبۡرٰی ﴿۱۸﴾ (النجم)
درمیانی آیت کے متعلق تو میں بعد میں عرض کروں گا‘ پہلے آخری آیت پر غور کیجئے. اس میں فرمایا گیا ہے کہ محمد نے کیا دیکھا! ’’بے شک انہوں نے اپنے رب کی عظیم الشان نشانیوں کو دیکھا‘‘. ’’کُبْرٰی‘‘ اسم تفضیل ہے. پس یہاں عظیم ترین آیاتِ ربانیہ کے مشاہدے کا ذکر ہے. یعنی محمد کو رب کا نہیں‘ آیاتِ ربانیہ کا مشاہدہ ہوا ہے. سورۂ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں معراج کے زمینی سفر کی غرض و غایت یہ بیان ہوئی کہ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا یعنی یہ سفر اس لیے کرایا گیا کہ ہم اپنے رسول کو اپنی آیات میں سے چند ایک کا مشاہدہ کرائیں. وہاں ’’کبریٰ‘‘ نہیں آیا. وہ زمینی آیات ہیں‘ وہ بھی اللہ کی نشانیاں ہیں. لیکن عظیم ترین آیاتِ الٰہیہ وہ ہیں جو سدرۃ المنتہیٰ کو ڈھانپے ہوئے ہیں‘ جن کا رسول اللہ نے مشاہدہ فرمایا. 

اس حوالے سے اگر تقابل کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا اور اس اعتبار سے فضیلت ِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ثابت کی جائے تو درست ہوگی کہ ذاتِ باری تعالیٰ کی ایک تجلی جو کوہِ طور پر پڑی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کا بھی تحمل نہ کرسکے اور یہاں تجلیاتِ ربانیہ کا سدرۃ المنتہیٰ پر براہِ راست جو نزول ہورہا تھا جناب محمد نے انہیں بھرپور انداز میں دیکھا اور ان کا تحمل کیا. اس اعتبار سے فرق و تفاوت ثابت ہے. لیکن اگر یہاں ذاتِ باری تعالیٰ کے دیدار کو لایا جائے تو یہ بلاسند ہے‘ اس کی قرآن یا حدیث میں سند موجود نہیں. اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ اتنی بڑی بات تھی کہ یہاں ضرور اس کی صراحت کردی جاتی یا کم از کم حدیث میں ہی اس کی تصریح ہوتی. ہاں بعض صحابہؓ کے یہ اقوال کہ آپؐ شب ِ معراج میں دیدارِ الٰہی سے بھی مشرف ہوئے تھے‘ سند کے ساتھ منقول ہیں. لیکن عظیم اکثریت کی رائے یہی ہے کہ شب ِ معراج میں حضور کو دیدارِ الٰہی نہیں ہوا. جمہور اہلِ سنت کی رائے بھی یہی ہے. اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو آنکھیں عطا کی ہیں اور ان میں بصارت کی جو صلاحیت رکھی ہے وہ دیدارِ الٰہی کا تحمل نہیں کرسکتیں.

یہ رائے رکھنے والے اصحاب ِرسول رضوان اللہ علیہم اجمعین اس کے لیے قرآن حکیم کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ ۚ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱۰۳﴾ (الانعام) ’’نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے‘ وہ نہایت باریک بیں اور باخبر ہے‘‘. البتہ قیامت کے روز اہل ِایمان دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوں گے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ بعث بعد الموت پر ان کو وہ بصارت عطا فرمائے گا جو دیدارِ الٰہی کا تحمل کرسکے گی. سورۃ القیامہ میں ارشاد ہے : وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ۲۲﴾اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ۲۳﴾ ’’کچھ چہرے اُس روز تروتازہ ہوں گے. اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے‘‘.نیز حدیث میں بھی آیا ہے کہ اہل ِجنت کے لیے سب سے بڑی نعمت دیدارِ الٰہی ہوا کرے گی. (رؤیت ِ باری تعالیٰ کے ضمن میں بعض اہم احادیث اس کتابچے کے آخر میں ’’ضمیمہ‘‘ میں ملاحظہ کرلی جائیں.)