اب ہم دوبارہ زیر مطالعہ حدیث کی طرف رجوع کرتے ہیں. اس میں سدرۃ المنتہیٰ کی بات شروع ہوئی تھی. نبی اکرم سے حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: ثُمَّ رُفِعْتُ اِلٰی سِدْرَۃِ الْمُنْتٰھی ’’پھر مجھے اُٹھا لیا گیا سدرۃ المنتہیٰ تک‘‘. فَاِذَا نَـبْقُھَا مِثْلُ قِلَالِ ھَجَرَ‘ وَاِذَا وَرَقُھَا مِثْلُ آذَانِ الْفِیْلَۃِاب حضور سدرۃ المنتہیٰ کی کچھ باتیں ہماری زبان میں سمجھا رہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ : ’’اُس بیری کے درخت کے بیر تو علاقہ ہجر کے مٹکوں کے حجم کے تھے اور اُس کے پتے ّہاتھی کے کانوں جتنے بڑے تھے‘‘. قَالَ: ھٰذِہٖ سِدْرَۃُ الْمُنْتَھٰی ’’(حضرت جبرائیل ؑنے) کہا: یہ ہے سدرۃ المنتہیٰ‘‘. وَاِذَا اَرْبَعَۃُ اَنْھَارٍ: نَھْرَانِ بَاطِنَانِ‘ وَنَھْرَانِ ظَاھِرَانِ ’’میں نے وہاں چار نہریں دیکھیں‘ دو نہریں خفیہ طور پر اور دو ظاہر طور پر بہہ رہی تھیں‘‘. فَقُلْتُ مَا ھٰذَا یَا جِبْرِیْلُ؟ ’’تومیں نے پوچھا: جبرائیل! یہ کیا ہیں؟‘‘ قَالَ: اَمَّا البَاطِنَانِ فَنَھْرَانِ فِی الْجَنَّۃِ ’’یہ جو دو ڈھکی ہوئی نہریں جاری ہیں یہ تو جنت کی نہریں ہیں (ایک کوثر اور دوسری سلسبیل)‘‘. وَامَّا الظَّاھِرَانِ‘ فَالنِّیلُ وَالْفُرَاتُ ’’اور یہ جو ظاہری نہریں جاری ہیں یہ نیل اور فرات ہیں‘‘. یعنی جن کا مادی پر تَوہمیں دنیا میں نظر آتا ہے. 

ثُمَّ رُفِعَ لِیَ الْبَیْتُ الْمَعْمُوْرُ ’’پھر بیت المعمور میرے قریب لایا گیا‘‘. بیت المعمور درحقیقت ساتویں آسمان پر اللہ تعالیٰ کا اصل گھر ہے‘ جس کا ظِل اور سایہ اس دنیا میں خانہ کعبہ ہے. ایک روایت میں آتا ہے کہ جبرائیل ؑنے اس کے بارے میں بتایا: یُصَلِّی فِیہِ کُلَّ یَومٍ سَبْعُونَ اَلْفَ مَلَکٍ‘ اِذَا خَرَجُوْا لَمْ یَعُوْدُوْا اِلَیْہِ آخِرُ مَا عَلَیْھِمْ ’’اس میں روزانہ ستر ّہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب ایک بار اس سے نکلتے ہیں تو دوبارہ ان کے داخلے کی نوبت نہیں آتی‘‘. اسی طریقے سے فرشتے بیت الحرام میں خانہ کعبہ کا بھی طواف کرتے ہیں. پھر جان لیجئے کہ یہ ہماری نگاہوں سے مخفی عالم ِغیب کی ایک دنیا ہے. یقینا اس کا ایک وجود ہے‘ چاہے وہ ہمیں نظر نہ آئے. (واضح رہے کہ بخاری و مسلم کی بعض روایات میں بیت المعمور کا ذکر سدرۃ المنتہیٰ سے مقدم ہے) ثُمّ اُتِیتُ بِاِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ‘ وَاِنائٍ مِنْ لَبَنٍ‘ وَاِناءٍ مِنْ عَسَلٍ ’’پھر میرے سامنے تین برتن لائے گئے‘ ایک شراب کا‘ ایک دودھ کا اور ایک شہد کا‘‘. فَاَخَذْتُ اللَّبَنَ ’’تو میں نے دودھ والا پیالہ اُٹھالیا‘‘. قَال: ھِیَ الْفِطْرَۃُ الَّتِی اَنْتَ عَلَیْھَا وَاُمَّتُکَ ’’حضرت جبرائیل ؑنے کہا: یہی مطابق ِ فطرت ہے‘ جس پر آپؐ بھی ہیں اور آپؐ کی اُمت بھی‘‘. یعنی انہوں نے نبی اکرم کے انتخاب کی توثیق کی. یہی بات اس آیت میں فرمائی گئی ہے: فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا چنانچہ نبی اکرم نے اسی فطرتِ انسانی کا انتخاب فرمایا جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا.