نبی اکرم نے مزید فرمایا: ثُمَّ فُرِضَتْ عَلیَّ الصَّلَوَاتُ‘ خَمْسِیْنَ صَلَاۃً کُلَّ یَوْمٍ) ’’پھر مجھ پر (اور میری امت پر) پچاس نمازیں یومیہ فرض کی گئیں‘‘. ایک دوسری روایت میں ہے کہ مجھے اس موقع پر تین چیزیں عطا کی گئیں: ایک تو پچاس نمازیں ایک دن رات میں فرض ہوئیں اور دوسری سورۃ البقرۃ کی آخری دو آیات: 

اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟ وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۲۸۵﴾لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا ؕ لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۸۶﴾٪ 

اور تیسری چیز یہ کہ آپؐ کی اُمت کے گناہ کبیرہ بھی بغیر توبہ کے معاف ہوسکیں گے. یہ خصوصی تحفے ہیں جو بارگاہِ ربّ العزت سے اس مقام پر شب ِ معراج میں محمدرسول اللہ کو امت کے لیے عطا ہوئے. اس میں ا وّلین صلوٰۃ ہے. یہ معراج میں فرض ہوئی ‘لہذا اس کے متعلق اولیاء کرامؒ کا قول ہے : 
’’اَلصَّلَاۃُ مِعْرَاجُ الْـمُؤْمِنِیْنَ‘‘ یعنی نماز اہل ِایمان کے لیے بمنزلۂ معراج ہے. پھر اسی روایت میں آگے تفصیل آرہی ہے کہ نبی اکرم جب واپسی کے لیے آئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا: ’’یہ پچاس نمازیں بہت زیادہ ہیں‘ مجھے لوگوں کا تجربہ ہے‘ آپ کی امت اس کا تحمل نہ کرسکے گی‘ واپس جائیے اور تخفیف کے لیے درخواست کیجئے‘‘. 

حضور واپس گئے تو دس نمازیں معاف ہوگئیں‘ چالیس رہ گئیں. پھر آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے پھر وہی بات کہی اور آپ کو واپس بھیجا. پھر گئے تو تیس ہوگئیں‘ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھیجنے پر پھر گئے تو بیس ہوگئیں‘ پھر تشریف لے گئے تو دس رہ گئیں. اس پر بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہی بات کہی. آپ پھر گئے تو اب پانچ رہ گئیں. حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر بھی کہا کہ پھر واپس جائیے اور تخفیف کے لیے درخواست کیجئے‘ پانچ نمازیں بھی آپؐ کی اُمت کے لیے بھاری ہوں گی. لیکن حضور نے فرمایا کہ اب مجھے شرم آتی ہے‘ اتنی مرتبہ جاچکا ہوں کہ اب مزید جانے میں حیا محسوس کررہا ہوں‘ لہذا میں اسی پر راضی ہوں اور اس معاملے کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں. حضور فرماتے ہیں کہ ’’جب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے واپسی کے لیے روانہ ہوا تو ایک ندا کرنے والے کی ندا آئی کہ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) ’’میں نے اپنے فرض کو نافذ کردیا ہے اور اپنے بندوں کا بوجھ ہلکا کردیا ہے‘اور میں نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں‘‘. ایک دوسری متفق علیہ روایت کے آخر میں اس کا ذکر ہے کہ ’’اللہ کے ہاں یہ پانچ نمازیں اجر و ثواب کے حساب سے پچاس نمازوں کے مساوی ہیں‘ اللہ تعالیٰ کے ہاں قول بدلا نہیں جاتا‘‘. میں نے بقیہ حدیث کی ترجمانی اپنے الفاظ میں کردی ہے. اب اس کے آخری حصے کا متن بھی ملاحظہ کرلیجئے:

فرَجَعْتُ اِلٰی مُوْسٰی‘ فَقَالَ: بِمَ اُمِرْتَ؟ قُلْتُ: اُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ کُلَّ یَوْمٍ‘ قَالَ: اِنَّ اُمَّتَکَ لَا تَسْتَطِیْعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ کلَّ یَومٍ‘ وَاِنِّی قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَکَ‘ وَعَالَجْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ اَشَدَّ الْمُعَالَجَۃِ‘ فَارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ‘ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ لِاُمَّتِکِ‘ قَالَ: سَاَلْتُ رَبِّیْ حَتَّی اسْتَحْیَیْتُ وَلٰــکِنِّیْ اَرْضٰی وَاُسَلِّمُ‘ قَالَ: فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادٰی مُنَادٍ: اَمْضَیْتُ فَرِیْضَتِیْ وَخَفَّفْتُ عَنْ عِبَادِیْ وَاَجْزِی الْحَسَنَۃَ عَشْرًا 
صحیح بخاری میں یہ حدیث کتاب بدء الخلق‘ باب ذکر الملائکۃ اور کتاب المناقب‘ باب المعراج میں وارد ہوئی ہے‘ جبکہ صحیح مسلم میں کم و بیش الفاظ کے ساتھ کتاب الایمان‘ باب الاسراء بِرَسُوْلِ اللّٰہِ اِلَی السَّمَاوات وفرض الصلوات میں بھی آئی ہے.اس متفق علیہ روایت کے علاوہ بھی واقعہ ٔمعراج کے متعلق کثیر روایات موجود ہیں. آنحضور کو جنت و دوزخ کے جو مشاہدات کرائے گئے وہ دوسری روایات میں مذکور ہیں‘ لیکن اسناد کے اعتبار سے کسی دوسری روایت کا وہ درجہ اور مرتبہ نہیں ہے جو اس روایت کا ہے. 

ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ پھر حضور واپس مسجد اقصیٰ تشریف لائے اور وہاں سے براق پر مکہ مکرمہ مراجعت ہوئی. میں چند دوسری روایات کی روشنی میں عرض کرچکا ہوں کہ اس پورے سفر معراج کے دوران وقت بالکل نہیں گزرا. گویا وقت کہیں روک دیا گیا اور پوری کائنات کو کہیں تھام دیا گیا . یہ بات تو وہ ہے جو آج سے پہلے بھی سمجھ میں آسکتی تھی کہ شاید کسی ایک وقت پر پوری کائنات کو روک دیا گیا ہو اور کسی کے لیے بھی وقت بالکل نہ گزرا ہو. لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اِس وقت تو یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ سب کے لیے وقت گزر رہا ہو ‘لیکن صرف محمد رسول اللہ  کے لیے نہ گزرے. تاہم یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ اس پورے سفر کے لیے وقت کی رفتار کو روک دیا گیا ہو. کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ع ’’ آگے بڑھو یا وقت کی رفتار روک دو!‘‘… تو یہ وقت کی رفتار محمدرسول اللہ کے لیے روک دی گئی تھی. واللہ اعلم!!