اسی ضمن میں وہ واقعہ آتا ہے کہ چند لوگ دوڑے دوڑے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے. وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگریہ پالا ہم مار لیں تو پھر ہماری جیت ہے‘ اگر ہم ابوبکرؓ کو متزلزل کردیں تو پھر گویا ہمارے لیے کوئی اور مسئلہ نہیں رہے گا. روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ سن کر ایک مرتبہ تو جھرجھری لی‘ لیکن آنے والوں سے صرف ایک سوال کیا کہ ’’کیا واقعی وہؐ یہ فرمارہے ہیں؟‘‘ لوگوں نے خوش ہوکر تالیاں بجاتے ہوئے کہا: ہاں ہاں وہ یہ کہہ رہے ہیں‘ چلو ہم تمہیں اپنے ساتھ لے چلتے ہیں‘ اپنے کانوں سے سن لو. انہوں نے سمجھا کہ ہمارا وار کارگر ہوا ہے‘ واقعی کوئی تزلزل معلوم ہوتا ہے. لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس سوال کے بعد یہ جواب دیا: ’’لوگو! اگر آپ ﷺ کہہ رہے ہیں تو صد فی صد درست کہہ رہے ہیں. میں یہ مانتا ہوں کہ روزانہ فرشتہ آپﷺ کے پاس آتا ہے‘ اور اگر ایک مرتبہ آپﷺ کو آسمان پر لے جایا گیا تو یہ کون سی بڑی شے ہے؟ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں‘‘. یہ دن ہے کہ جس دن سے بارگاہِ رسالتؐ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب عطا ہوا اور اسی روز سے ابوبکر ’’صدیق اکبر‘‘ شمار ہوتے ہیں. رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہ.
تو یہ تھا وہ سفرِ معراج‘ جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول حضرت محمدﷺ کو ہفت آسمان اور سدرۃ المنتہیٰ پر موجود اپنی عظیم نشانیوں کا مشاہدہ کرایا.
اَقولُ قَولِی ھٰذا وَاَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ لِی وَلَــکُم وَلِسَائِرِ المُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ ضمیمہ