چند تمہیدی باتیں

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ 
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo 

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾ 
(النساء) 

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ یہ بات تو کبھی معاف نہیں کرے گا کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے‘ اور اس (۲۷)کے ماسوا جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہے گا معاف کر دے گا. اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرایا اُس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا.‘‘
… وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾ (النساء)

’’… اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا.‘‘
وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾ (لقمٰن) 

’’ اور یاد کرو جب کہ لقمان نے کہا اپنے بیٹے سے‘ اور وہ اسے نصیحت کر رہے تھے کہ اے میرے بچے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کیجیو‘ یقینا شرک بہت بڑا ظلم (اور بہت بڑی ناانصافی) ہے‘‘. 

چند تمہیدی باتیں

’’حقیقت و اقسامِ شرک‘‘ کے موضوع پر مفصل گفتگو کا یہ سلسلہ اغلباً چھ نشستوں پر مشتمل ہو گا. کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس کوشش کے ذریعے سے اُمت مسلمہ میں حقیقتِ شرک کے بارے میں صحیح فہم و شعور پیدافرمائے اور اس ضمن میں ہم سے کوئی مفید خدمت قبول فرمالے!

ابتداء ً مجھے اس موضوع سے متعلق کچھ تمہیدی باتیں گوش گزار کرنی ہیں. سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے دین کی حقیقت کو اگر ایک لفظ میں تعبیر کرنے کی کوشش کی جائے‘ یا بالفاظِ دیگر اس کی تعلیم کے لبِّ لباب اور خلاصے کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ لفظ ’’توحید‘‘ہے. ہمارا دین دراصل ’’دینِ توحید‘‘ ہے. یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے توحید کو ہی وہ اصل امانت قرار دیا ہے جو مسلمانوں کا طرۂ امتیاز ہے : ؎ 

توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا! 

اور جوابِ شکوہ میں بھی نبی اکرم کے مشن کو علامہ اقبال نے اسی ایک لفظ ’’توحید‘‘سے تعبیر کیا ہے : ؎
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

تو ہمارا دین اصل میں دین توحید ہے. ’’توحید ‘‘کی ضد ہے ’’شرک‘‘. شرک چاہے ثنویت کی شکل میں ہو‘ تثلیث کی شکل میں ہو یا کثرتِ آلِــھَہ کی صورت میں ہو‘ اِن سب صورتوںکو ہم ایک ہی لفظ ’’شرک‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں. اورجب یہ بات طے ہے کہ ہمارا دین‘ دین توحید ہے تو اُس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس دین میں سب سے بڑا جرم اور سب سے بڑا گناہ ‘جو ناقابل درگزر ہے ‘ وہ شرک ہے.چنانچہ یہی بات سورۃ النساء میں دو مرتبہ بعینہٖ انہی الفاظ میں وارد ہوئی ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ (آیت ۴۸ و ۱۱۶’’یقینااللہ تعالیٰ یہ بات تو ہرگز معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے‘ البتہ اس سے کمتر گناہ جس کو چاہے گا بخش دے گا‘‘.اگرچہ اس آیت کو دوسرے گناہوں کے ضمن میں کوئی کھلا لائسنس نہیں سمجھ لینا چاہیے ‘ اللہ تعالیٰ کا کوئی پختہ وعدہ اور یقین دہانی نہیں ہے کہ وہ دوسرے گناہ لازماًبخش دے گا ‘بلکہ الفاظ ہیں: ’’لِمَنۡ یَّشَآء‘‘ کہ جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا. لہذا یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ ہمیں کھلی چھٹی مل گئی ہے کہ ہم شرک کے سوا جس گناہ میں چاہیں ملوث ہو جائیں‘ کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا. تاہم اُمید ضرور دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں شرک کی معافی کی توکوئی صورت نہیں ہے ‘البتہ اُس سے کمتر گناہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا معاف فرما دے گا. 

بہرحال معلوم ہوا کہ ہمارے دین میں سب سے بڑا گناہ‘ سب سے بڑا جرم‘ جو ناقابل درگزر ہے ‘ وہ شرک ہے. اس حقیقت کو یوں سمجھئے کہ ازروئے قرآن سب سے بڑا ظلم شرک ہے. بلکہ قرآن مجید میں جہاں بھی لفظ ’’ظلم‘‘ آتا ہے‘ اگر سیاق و سباق سے اس کے کوئی اور معنی معین نہ ہو رہے ہوں تو وہاں اس کا معنی ’’شرک‘‘ ہے اور اسی اعتبار سے ’’ظالمین‘‘ کا معنی ’’مشرکین‘‘ ہے. چنانچہ آیت زیر گفتگو میں یہ حقیقت بیان ہوئی : 
اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ’’واقعہ یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے. ‘‘

عربی زبان میں ظلم کا مطلب ہے : 
وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ ’’کسی چیز کو اُس کے اصل مقام سے ہٹاکر کسی اور جگہ رکھنا.‘‘ عدل اور انصاف یہ ہے کہ ہر چیز کو اُس کے اصل مقام پر رکھا جائے‘ جبکہ ظلم یہ ہے کہ کسی شے کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر کہیں اور رکھ دیا جائے. اب شرک میں بھی اِن دو میں سے ایک صورت ہوتی ہے کہ یا تو مخلوقات میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر بٹھا دیا جاتا ہے. یہ ’’وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ‘‘ کی ایک صورت ہے . اور یا پھر اللہ کو (نعوذ باللہ) گرا کر مخلوقات کی صف میں لایا جاتا ہے اور یہ ’’وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ‘‘ کی دوسری صورت ہے. تو معلوم ہوا کہ’’ظلم‘‘ کا سب سے بڑا مصداق ’’شرک‘‘ ہے.

ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سورۃ الانعام کی آیت ۸۳ کے حوالے سے نبی اکرم سے ’’ظلم‘‘ کے بارے میں استفسار کیا تو آپؐ نے سورۂ لقمان کی زیر بحث آیت ۱۳ کا حوالہ دے کر فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے. جب سورۃ الانعام کی یہ آیت نازل ہوئی: 
فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۘ۸۱﴾ ’’(حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا کہ اے مشرکو!) اگر تم جانتے ہو تو ذرا بتاؤ کہ دونوں گروہوں (موحّدین اور مشرکین) میں سے کون امن و سکون اور اطمینان کا زیادہ حق دا رہے؟ ‘‘ ایک گروہ مشرکین کا تھا اور ایک موحّدین کا. ایک طرف صرف ایک اللہ کے ماننے والے تھے اور دوسری طرف وہ تھے جو اللہ کے ساتھ دوسرے بہت سے معبودوں کو ماننے والے تھے. لہذا پوچھا گیا کہ ان میں سے حقیقی ذہنی سکون اور حقیقی قلبی اطمینان کا زیادہ مستحق کون ہے؟ یہ سوال کرنے کے بعد قرآن مجید اپنے ایک عام اسلوب کے مطابق خود جواب دیتا ہے : 

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾ 
’’جو لوگ ایمان لائیں اور اپنے ایمان کو کسی ظلم سے ملوث نہ کریں‘ حقیقت میں امن و سکون (اور اطمینان) کے مستحق وہی ہیں اور وہی ہدایت یافتہ ہیں.‘‘

یعنی جو اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کا کوئی شائبہ پیدا نہ ہونے دیں. اس پر صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تشویش پیدا ہوئی کہ اگر اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے مشروط ہیں کہ ایمان کے ساتھ ظلم کی قطعاً آمیزش نہ ہو‘ تو ایسا کون شخص ہو گا جو کسی نہ کسی درجے میں دوسروں پر یا اپنے اوپر ظلم نہ کرتا ہو.غور کیجیے کہ اگر آپ نے اپنے وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع کیا تو یہ بھی اپنے اوپر ظلم ہے. تو ظلم سے بالکل بری اوربالکل پاک ہو جانا کسی فردِ بشر کے لیے ممکن نہیں ہے.چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی اکرم کے سامنے اپنی اس تشویش کو ظاہر کیا کہ حضور ! ایسا شخص کون ہو گا جو ظلم سے بالکل بری ہو. اس پر نبی اکرم نے تسلی دی کہ اس آیہ ٔ مبارکہ میں ظلم سے مراد شرک ہے. اور آپؐ نے سورۂ لقمان کی اسی آیت کا 
حوالہ دیا کہ کیاتم نے یہ آیت نہیں پڑھی:

وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳

تو مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ ایمان لائیں اِس شان کے ساتھ کہ شرک کی کوئی آمیزش نہ رہے تو وہ ہیں کہ جو امن کے مستحق ہوں گے اور وہی ہیں کہ جوہدایت پر ہیں اور اپنی آخری منزلِ مراد تک پہنچ سکیں گے. 

اب میں اسی کا عکس 
converse آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں. جب ہمارا دین ‘دینِ توحید ہے تو اس تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہوا کہ سب سے بڑا اور ناقابل معافی جرم اور سب سے بڑا ظلم شرک ہے. قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکرآتا ہے. آپؑ کی جلالتِ قدر اورمقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے کہ آپؑ کی تین تین نسبتیں ہیں اور تینوں ہی نہایت بلند ہیں. ایک نسبت اللہ کے ساتھ یہ ہے کہ آپ ’’خلیل اللہ‘‘ ہیں. اس خُلّتِ الٰہی کا جو مقام و مرتبہ ہے اس کی عظمت کا کچھ اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ میرا خلیل صرف اللہ ہے. یعنی کوئی فردِ نوعِ بشر حتیٰ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی خُلّتِ محمدیؐ کے مقام پر فائز نہیں ہیں.ارشادِ نبویؐ ہے: لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلًا لَاتَّخَذْتُ اَبَابَکْرٍخَلِیْلًا (۱’’اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا‘‘. محمد رسول اللہ کا یہ خُلّت کا رشتہ صرف اپنے ربّ کے ساتھ تھا. اور یہی وہ رشتہ ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے ربّ کے ساتھ جس کی قرآن اہتمام کے ساتھ وضاحت کر رہا ہے: وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾ (النساء) ’’اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنا لیا‘‘.

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری نسبت رسولوں اور نبیوں کے ساتھ ہے‘ اور وہ یہ کہ آپؑ 
’’ابوالانبیاء‘‘ ہیں. سینکڑوں جلیل القدر پیغمبر آپؑ کی نسل میں گزرے ہیں. اُولُواالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُل میں سے تین یعنی حضراتِ موسٰی‘ عیسٰی اور محمدٌ رسول اللہ علیہم (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الصلاۃ‘ باب الخوخۃ والممر فی المسجد. وصحیح مسلم‘ کتاب فضائل الصحابۃ‘ باب من فضائل ابی بکر الصدیق ؓ - الصلاۃ والسلام ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں. ان میں سے عیسٰی علیہ السلام اگرچہ بن باپ کے پیدا ہوئے‘ لیکن ان کی والدہ مریم سلامٌ علیہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل ہی سے ہیں. ان کے علاوہ سینکڑوں نبی آپؑ کی نسل میں سے ہیں. تو آپ ؑ ابوالانبیاء ہیں .
آپؑ کی تیسری نسبت پوری نوعِ انسانی کے ساتھ یہ ہے کہ آپؑ 
’’امامُ الناس‘‘ ہیں. ارشادِ ربّانی ہے : وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ؕ (البقرۃ:۱۲۴’’اور (یاد کرو) جب ابراہیم ؑ کو اُن کے ربّ نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘.اس جلالتِ قدر کے ساتھ قرآن مجید میں جہاں کہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیاہے تو اُن کو جو آخری سند دی جاتی ہے وہ یہ ہے: وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۳۵﴾ (البقرۃ) ’’اور آپ (ابراہیم علیہ السلام ) مشرکوں میں سے نہ تھے.‘‘

معلوم ہوا کہ شرک سے بالکل آزاد ہو جانا انسانیت کے لیے معراج ہے اور یہ بلند ترین مقام ہے جس تک انسان پہنچ سکتا ہے .اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرما دے کہ میرا یہ بندہ مشرک نہیں ہے‘ میرا یہ بندہ شرک سے پاک ہے تو گویا اُسے آخری سند مل گئی‘ آخری سر ٹیفکیٹ اور آخری
testimonial مل گیا.

اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہو گیا کہ ایک طرف تو ہمارے دین میں سب سے بڑا جرم‘ سب سے بڑا گناہ‘ سب سے بڑا ظلم‘ جو ناقابل عفو ہے ‘وہ شرک ہے. اور دوسری طرف سب سے بڑی سند‘ سب سے بڑا سر ٹیفکیٹ اور سب سے اونچا مقام یہ ہے کہ انسان شرک سے بالکل پاک ہو.اب ان دونوں چیزوں کو بیک وقت ذہن میں رکھتے ہوئے میں ایک نتیجہ نکال رہا ہوں. اور وہ یہ کہ واقعتا ہرگمراہی‘ ضلالت اور کج روی‘ خواہ وہ نظریات کی ہو‘ عقائد کی ہو یا اعمال کی‘ اگرتجزیہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اس کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں شرک سے ملتے ہیں. اور ہرخیر و خوبی‘ بھلائی ‘نیکی‘ صحتِ فکر‘ صحتِ عقیدہ‘ صحتِ عمل وغیرہ کے جتنے بھی شعبے ہیں وہ سب توحید کی فروع 
(corollaries) اور لازمی نتائج ہیں. تو اس طرح سے یہ ایک ہمہ گیر تصور ہے. شرک کی اقسام اور اس کی فروع کو اگر آپ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ شجرۂ خبیثہ ہے کہ ہر بدی‘ ہر گناہ ‘ہر جرم‘ اور ہر نظریہ یا خیال کی گمراہی لازماً اسی کی کسی نہ کسی شاخ کی حیثیت رکھتی ہے. اور اس کے برعکس ہر خیر ‘ ہر نیکی اور ہر بھلائی‘ خواہ وہ خیال اور نظریے کی ہو یا عمل کی ہو‘ اس کا تعلق لازماً توحید ہی کے شجرئہ طیبہ سے ہے.اس ’’شجرِ توحید‘‘کے لیے قرآن مجید میں تمثیل آئی ہے اور اس کے بارے میں الفاظ آئے ہیں:

اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾ (ابراہیم)
’’اس کی جڑ مضبوط و مستحکم ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے.‘‘ 

شرک کی ہمہ گیری کا ایک تصور قرآن مجید میں سورۂ یوسف کی آیت ۱۰۶ میں یوں بیان ہوا ہے: 

وَ مَا یُؤۡمِنُ اَکۡثَرُہُمۡ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمۡ مُّشۡرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾ 
’’اورانسانوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کو مانتے ہیں‘ مگر کسی نہ کسی نوع کے شرک کے ساتھ‘‘.

یہ بات جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کا انکار تو تاریخ انسانی میں آپ کو شاذ ہی کہیں ملے گا‘ کہیں کہیں اس قسم کے لوگ مل جاتے ہیں کہ جن کی مت بالکل ماری گئی ہو. آج کے دَور میں بظاہر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا انکار بہت عروج پر ہے‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ خدا کو وہ بھی مانتے ہیں جنہیں منکرین خدا سمجھا جاتا ہے. درحقیقت انہوں نے مادّے کو خدا کے مقام پر لے جا کر بٹھا دیا ہے ‘خدا کا انکار نہیں کیا ہے. ایک حقیقت کبریٰ کو ماننے پر سب مجبور ہیں‘ جبکہ سارا اختلاف خدا تعالیٰ کی صفات میں ہے. مثلاً یہ اختلاف کہ وہ 
الحیّ ہے یا مُردہ ہے.اگر مُردہ ہے تو اسے مادّہ کہہ لیجیے ‘اور اگر الحیّ القیّوم ہے‘ صاحب ارادہ ہے تو وہ اللہ ہے.

چنانچہ فرق تو سارا صفات کا ہے. بہرحال یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ خدا کو خدا کے نام سے ماننے والے تاریخ انسانی میں ہمیشہ عظیم اکثریت میں رہے ہیں اور خدا کا صاف انکار کرنے والے شاذ رہے ہیں. خدا کوکچھ اور ناموں کے تحت ماننے والوں کی تعداد بھی شاید کچھ مل جائے‘ لیکن جو سب سے بڑی گمراہی ہمیشہ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ایک بڑے خدا کو ماننے کے ساتھ ساتھ کچھ اور چھوٹے خداؤں کو بھی مانااور تسلیم کیا گیا‘ ایمان کے ساتھ کسی نوع کے شرک کی آمیزش کر لی گئی‘ اور یہ ہے اصل گمراہی جو ہمیں پوری تاریخ انسانی میں پھیلی ہوئی اور چھائی ہوئی نظر آتی ہے. میں اپنے حقیقی قلبی احساسات آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ مسلمان کا خمیر جس مٹی سے اٹھا ہے‘ مجھے یقین ہے کہ وہ جان بوجھ کر کبھی شرک نہیں کرتا‘بلکہ ایسا ناممکن ہے. اس کے تصورات میں اگر شرک آتا ہے تو غیر محسوس طریقے سے درآتا ہے‘ کسی مغالطے کے باعث آتا ہے‘ وہ اس کو شرک سمجھ کر شرک نہیں کرتا‘ اس میں جہالت اور ناسمجھی کارفرما ہو سکتی ہے. اس کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ ہر دَور میں شرک کا یہ مرض ایک نئی صورت اختیار کر کے سامنے آتا ہے جس کو پہچاننے میں کوتاہی رہ جاتی ہے‘ اور جب تک اس کو پہچاننے کی صلاحیت پیدا نہ ہو جائے اس سے پوری طرح بچنا ممکن نہیں. بقول شاعر : ؎

بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من اندازِ قدت را می شناسم

یعنی خواہ تم کسی بھی رنگ کا لبادہ اوڑھ کر آ جاؤ میں تمہیں تمہارے قد سے پہچان لوں گا. ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بزعمِ خویش بڑا موحّد ہو اور پچھلے ادوار میں شرک کی جتنی بھی صورتیں رائج رہی ہوں اور علماء نے جن جن کی نشاندہی کر دی ہواُن سب سے وہ اپنے آپ کو بری اور پاک کرچکا ہو‘ بایں ہمہ اپنے دَور کے شرک کو نہ پہچان پایا ہو اور اس میں وہ ملوث ہو. 
اس پر گفتگو تو بعد میں ہو گی لیکن میں مثال کے طور پر علامہ اقبال کی نظم ’’وطنیت‘‘ پیش کر رہا ہوں: ؎

اِس دَور میں مے اور ہے‘ جام اور ہے ‘ جم اور 
ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور 
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اِس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے 

اب غور کیجیے کتنا پیارا مصرعہ ہے:’’تہذیب کے آزرنے ترشوائے صنم اور‘‘ . آج سے ساڑھے چار ہزار برس کا آزر پتھر کی مورتیاں تراشتا تھا اور آج کا آزر کچھ خیالی تصورات کے بُت بنائے ہوئے ہے. زمانے زمانے کی بات ہے. اُس وقت انسان شاید زمین سے زیادہ سے زیادہ پانچ چھ فٹ چھلانگ لگا سکتا ہو گا‘ لیکن آج چاند تک پہنچا ہوا ہے. لہذا شرک نے بھی بڑی اونچی اڑان اڑی ہے اور بڑی مختلف صورتیں اختیار کی ہیں. اب ضرورت اُس عقابی نگاہ کی ہے جو اپنے دَور کے شرک کو پہچان لے. اگر یہ بصیرت نہیں ہو گی تو ہو سکتا ہے‘ جیسا کہ میں نے عرض کیا‘ ایک شخص اپنے خیال میں پورے خلوص کے ساتھ شرک کی ہر قسم سے اعلانِ برا ء ت کر چکا ہو اور عملاً اپنے آپ کو اس سے بری کر چکا ہو‘ لیکن اس کے باوجود وہ کسی نوع کے شرک میں مبتلا اور ملوث ہو. لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک بڑا جامع اور ہمہ گیر تصور ہمارے سامنے ہو. اور نہ صرف یہ کہ ہم اپنے ذہن اور فہم میں تمام اقسامِ شرک کا احاطہ کر لیں‘ بلکہ ہمارے اندر وہ اجتہادی صلاحیت پیدا ہو جائے کہ شرک جو بھی نیا لبادہ اوڑھے اور جو بھی نئی شکل اختیار کرے‘ اسے بھی ہم پہچان سکیں. اس کے لیے ضرورت ہے ایک اندرونی بصیرت کی . اس کے لیے وہ اصول تلاش کر لیے جائیں کہ جنہیں اگرمدّنظر رکھا جائے تو شرک چاہے جس صورت اور شکل میں بھی آرہا ہو ‘ جوبھی نیا بھیس بدلے اور جوبھی نیا لبادہ اوڑھے اس میں انسان اس کو پہچان لے. لہذا اِس وقت جو بحث ہو گی وہ زیادہ تر اقسامِ شرک کے ذیل میں ہو گی. 

اقسامِ شرک کے سلسلے میں ہمارے ہاں علماء نے مختلف تقسیمیں کی ہیں. مثلاً ایک تقسیم یہ ہے کہ ایک شرکِ جلی ہے اور ایک شرکِ خفی ہے. یعنی ایک تو نمایاں اورکھلم کھلا شرک ہے. مثلاً ایک شخص بُت کو سجدہ کر رہا ہے‘ جبکہ ایک خفی شرک ہے کہ جس کا تجزیہ کرکے ہی پتا چلتا ہے کہ شرک ہو گیا‘ وہ بظاہر نظر نہیں آتا. اس کی مثال یہ فرمانِ نبویؐ ہے 
کہ مَنْ صَلّٰی یُرَائِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ (۱’’جس نے دکھاوے کی نماز پڑھی اُس نے شرک کیا.‘‘ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے ‘لیکن جب وہ یہ محسوس کرتاہے کہ کوئی مجھے دیکھ رہا ہے تو وہ اپنی نماز لمبی کر دیتا ہے‘ سجدہ طویل کر دیتا ہے‘ تو حضور کے فرمان کی رو سے یہ شرک ہے.بظاہر تو وہ وہی نماز پڑھ رہا ہے‘ اس میں وہی قیام ہے‘ وہی رکوع ہے‘ وہی سجود ہے‘ اُس نے وہی سورۃ الفاتحہ پڑھی ہے‘ وہی ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی‘‘ اور وہی ’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ‘‘ کہا ہے. اپنی طرف سے اُس نے کوئی اضافہ نہیں کیا ہے‘ سوائے اس کے کہ ذرا نماز کا دورانیہ بڑھ گیا ہے‘اگر پہلے دس سیکنڈ کا سجدہ ہو رہا تھا تو اب پندرہ سیکنڈ کا ہو گیا‘ لیکن تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ایک سجدے کے دو مسجود ہو گئے. دس سیکنڈ کا سجدہ تو اللہ کے لیے تھا‘ لیکن بقیہ پانچ سیکنڈکا سجدہ اُس شخص کے لیے ہے جسے وہ دکھا رہا ہے‘ اور یہی شرک ہے. تو ایک ہے شرکِ جلی اور ایک ہے شرکِ خفی.

ایک اور تقسیم اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ ایک ہے عقیدے کا شرک اور ایک ہے عمل کا شرک. ایک شخص مختلف معبودوں کو مانتا ہے نام لے کر‘ جبکہ ایک شخص وہ ہے جو اللہ کے سوا کسی معبود کو نام لے کر تو نہیں مان رہا‘ لیکن اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے عمل میں شرک ہے .مثلاً نفس پرستی ایک قسم کا شرک ہے. ایک طرف حکم ہے اللہ کا اور ایک طرف خواہش ہے اپنے نفس کی. ہم کتنے ہی مواقع پر اللہ کے حکم کو پسِ پشت ڈال کر اپنے نفس کی خواہش کو مقدم کرتے ہیں! اُس وقت ہمارا اصل معبود کون ہے؟ ہمارانفس ہی ہے. ارشادِ الٰہی ہے :

اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳﴾ (الفرقان)
’’(اے نبی ؐ !)کیا آپ نے غور کیا اُس شخص کے حال پر جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا؟ تو کیا آپ ایسے شخص کی ذمہ داری لیں گے؟‘‘

یہاں نوٹ کیجیے کہ لفظ 
’’اِلٰــہ‘‘ استعمال ہوا ہے‘تاکہ کوئی مغالطہ نہ رہے. اوریہی ہمارے کلمۂ طیبہ کا لفظ ہے : لاَ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ. تو معلوم ہوا کہ عمل میں شرک ہو رہا ہے (۱) مسند احمد‘ کتاب الشامیین. اگرچہ عقیدے میں شرک نہیں ہے .اُس شخص نے کبھی بھی اپنے نفس کو معبود مانا نہیں‘ بلکہ آپ اس سے یہ بات کریں گے تو وہ آپ کا سر پھوڑ دے گا ‘ لیکن درحقیقت اس کے عمل میں شرک موجود ہے. اسی کے ذیل میں نبی ٔ اکرم کی ایک حدیث ہے جس میں آپؐ نے فرمایا: تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ (۱’’ہلاک ہو جائے درہم و دینار کا بندہ‘‘. یہاں لفظ ’’عبد‘‘ لایا گیاہے. اسی سے ’’عبادت‘‘ بنا ہے جس کے لیے فرمایا گیا: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ… (البقرۃ:۲۱’’اے لوگو! عبادت کرو اپنے ربّ کی جس نے پیدا کیا تمہیں…‘‘ آپ کو معلوم ہے کہ روپے اور پیسے کی پوجا کس انداز سے ہوتی ہے. روپے کو کبھی کسی نے معبود نہیں مانا ‘لیکن اگر کوئی بالفعل اس کی بندگی کر رہا ہے تو اس کا نام خواہ عبدالرحمن ہو یا عبداللہ ہو‘ لیکن اصل میں وہ ’’عبدالدّینار‘‘ اور ’’عبدالدّرہم‘‘ ہے. اب آپ غور کیجیے کہ ہم میں سے کتنے ہوں گے جو اِن دونوں چیزوں یعنی نفس پرستی اور دولت پرستی کے اندر ملوث نہ ہوں! اگر کوئی ستر فیصد اللہ کے احکام مان رہا ہے تو تیس فیصد میں کوتاہی کر رہا ہے.اور آپ اس کوتاہی کوصرف ایک منفی قدر نہ سمجھئے کہ بس اللہ کی بندگی میں کمی اور کوتاہی ہے. نہیں! بلکہ وہاں مثبت طور پر آپ کسی اورکی بندگی کر رہے ہیں. یہ نفس کی بندگی ہو رہی ہے‘ پیسے کی بندگی ہو رہی ہے ‘شہرت کی پوجا ہو رہی ہے‘ اقتدار کی پوجا ہو رہی ہے. تو معلوم ہوا کہ ہماری زندگیوں میں یہ دونوں عبادتیں‘ دونوں پرستشیں ‘ دونوں پوجائیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں. یہ شرک نہیں تو اور کیا ہے ؟ایسے لوگوں پر یہ آیۂ مبارکہ صادق آتی ہے :

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ (البقرۃ) 
’’تو کیا تم کتاب (اور شریعت) کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کا انکار کرتے ہو؟ تو تم میں سے جو کوئی یہ جرم کریں اُن کا بدلہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ انہیں (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجہاد والسیر‘ باب الحراسۃ فی الغزو فی سبیل اللہ. دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار کر دیا جائے اور آخرت کے دن انہیں شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے؟ اور اللہ اُن حرکات سے غافل نہیں ہے جو تم کر رہے ہو.‘‘

اب یہاں 
’’ اَشَدِّ الۡعَذَاب‘‘ کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آ تی ہے کہ یہ طرزِ عمل شرک ہے ‘اور شرک وہ جرم ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیاکہ اس کی بخشش کا کوئی سوال نہیں .

اقسامِ شرک کے حوالے سے دو تقسیمیں تو وہ ہیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھیں ‘ یعنی شرکِ جلی اور شرکِ خفی‘ یا شرکِ عقیدہ اور شرکِ عملی.امام ابن تیمیہؒ کا ان مباحث میں بڑا اونچا مقام ہے. اُن کی اصطلاحات کے مطابق ایک ہے 
شرک فی المعرفۃ‘ یعنی اللہ کی پہچان میں شرک‘ اور ایک ہےشرک فی الطلب. ارشادِ الٰہی ہے : ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ﴿۷۳﴾ (الحج) ’’مدد چاہنے والا بھی کمزو ر اور بودا ہے اور جس سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور اور بودا ہے‘‘. ہر انسان کی زندگی کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی مقصود اور مطلوب کو معین کر کے دوڑ دھوپ کر رہا ہے. اور توحید کا تقاضا یہ ہے کہ مقصود اور مطلوب کے درجے میں سوائے اللہ کے اور کوئی نہ ہو. کلمۂ طیبہ ’’لاَ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہ‘‘ کا اس اعتبار سے مفہوم ہے : لَا مَقْصُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ‘ لَا مَطْلُوْبَ اِلاَّ اللّٰہُ‘ لَا مَحْبُوْبَ اِلاَّ اللّٰہُ . اگر مقصود و مطلوب اور محبوب ہونے کے اعتبار سے کوئی اور اللہ کے برابر ہو گیا تو یہی تو شرک ہے. بقولِ اقبال: ؎ 

بُتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نومیدی 
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

امام ابن تیمیہ ؒ نے شرک کی بحث کو اِن دو اصطلاحات میں جمع کیا ہے . ’’شرک فی المعرفۃ‘‘ یہ ہے کہ اللہ کی پہچان میں کوئی کمی ہو‘ اس کی ذات و صفات کے ضمن میں کسی کو لاکر اس کا ساجھی اور ہم پلہ بنا دیا گیا ہو. یہ معرفت خداوندی میں شرک ہے. اور جو شرک فی العمل ہے اس کو انہوں نے نام دیا ’’شرک فی الطلب‘‘ کا کہ اگر مقصود و مطلوب اورمحبوبِ حقیقی ہونے کے اعتبار سے کوئی شے‘ کوئی شخص‘ کوئی ہستی‘ کوئی ادارہ اللہ کے ہم پلہ ہو جائے‘ دل کے سنگھاسن پر اگر وہ اللہ کے برابر آ کر بیٹھ جائے تو یہ شرک فی الطلب ہے.
اقسامِ شرک کے حوالے سے ایک تیسری تقسیم بھی ہے جو میرے نزدیک زیادہ عام فہم 
(comprehensive) ہے اور میں ذیل میں اسی کے اعتبار سے بحث کروں گا . میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس تقسیم کے حوالے سے اقسامِ شرک کا ایک دفعہ احاطہ کر لیا جائے تو اِن شاء اللہ وہ باطنی بصیرت پیدا ہو جائے گی کہ اگر کبھی شرک کی کوئی اور صورت بھی پیدا ہوئی تو اِس بصیرت کی روشنی میں اس کے پہچاننے میں دقت نہیں ہو گی. اس تقسیم کی رو سے شرک کی تین قسمیں ہیں : ایک ہے ’’شرک فی الذات‘‘ یعنی اللہ کی ہستی‘ اللہ کی ذات میں کسی اور کو اس کا ساجھی اور ہم پلہ بنا لینا.

اس کے لیے عربی کا اصل لفظ ’’کُفْو‘‘ ہے. (ہم اردو بول چال میں عام طور پر ’’ہم کفو‘‘ کہہ دیتے ہیں‘ حالانکہ لفظ ’’کفو‘‘ میں ’’ہم کفو‘‘ کا پورا مفہوم موجود ہے جو فارسی ترکیب ہے.) سورۃ الاخلاص میں دو ٹوک الفاظ میں فرما دیاگیا: وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴﴾ ’’اور کوئی اس کا کفو نہیں ہے‘‘! ’’کفو‘‘ کا مطلب ہے برابر ‘ہم سر . حضرت شیخ الہندؒ نے اس آیت کا ترجمہ کیا ہے : ’’اور نہیں ہے اس کے جوڑ کا کوئی.‘‘پہلے زمانے میں شادی بیاہ کے معاملے میں یہ لفظ بہت استعمال ہوتا تھا کہ شادی کفو میں ہونی چاہیے‘ یعنی برابری کا معاملہ ہونا چاہیے اور اس معاملے میں مختلف اعتبارات سے دیکھا جانا چاہیے‘ تاکہ انمل‘ بے جوڑ والی بات نہ ہو جائے اور عدم موافقت نہ ہو‘ بلکہ ماحول کچھ ایک جیسا ہی ہو جس میں لڑکا اور لڑکے پلے بڑھے ہوں‘ تقریباً ایک ہی سطح کی زندگی انہوں نے بسر کی ہو‘ عادات میں کہیں بہت زیادہ فرق نہ ہو‘ مبادا نباہ میں رکاوٹ بن جائے.اوریہ معاملہ درحقیقت حکمت میں سے ہے.تو اس لفظ ’’کفو‘‘ کو ذہن میں لایئے کہ کسی کو اللہ کا کفو بنا دینا ’’شرک فی الذّات‘‘ ہے اور یہ بدترین‘ عریاں ترین اور گھناؤنا ترین شرک ہے‘ جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب بہت بھڑکتا ہے. 

دوسری قسم کا شرک ہے 
’’شرک فی الصفات‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی کو اس کے برابر کر دینا‘ مدّمقابل بنا دینا‘ ساجھی قرار دے دینااور مثل بنا دینا . آپ علماء کرام کے خطبات میں یہ الفاظ سنتے ہوں گے: لَا مِثْلَ لَـہٗ وَلَا مِثَالَ لَـہٗ وَلَا مَثِیْلَ لَـہٗ وَلَا ضِدَّ لَـہٗ وَلَا نِدَّ لَـہٗ . یہ تمام الفاظ اسی اعتبار سے ہیں کہ شرک کے ہر شائبہ کی نفی ہوجائے ‘ ہر نوعیت کا انکار ہو جائے‘ کہ نہ کوئی اس کا کفو ہے ‘نہ کوئی اس کا مثل ہے ‘ نہ کوئی اس کی مثال ہے‘ نہ کوئی اس کا ہم رتبہ ہے‘نہ کوئی اس کا ہم پلہ ہے‘ نہ کوئی اس کا مدّمقابل ہے‘ نہ کوئی اس کا ساجھی ہے. تو صفات میں کسی کو کسی بھی پہلو سے اللہ تعالیٰ کے برابر کر دینا شرک فی الصفات ہے . اور میں پیشگی طور پر یہ عرض کر دوں کہ یہ بڑا لطیف اور نازک سا معاملہ ہے اوراس میں ایک علمی مسئلہ involve ہے.اس میں چند ایسی لطیف باتیں ہیں کہ اگر وہ مدّنظر نہ رہیں تو بڑی آسانی سے انسان کا قدم توحید کی شاہراہ سے ہٹ کر شرک کے کسی راستہ پر پڑ سکتا ہے. اس میں مغالطہ بے شعوری طور پر ‘بلکہ میں تو کہوں گا کہ خلوص کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے.اس نوع کے شرک کے بارے میں ؏ ’’ہشدار کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را‘‘ والا معاملہ ہے. جیسے پل صراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے ‘ایسا ہی معاملہ شرک فی الصفات کا ہے. اس کے چند اہم اور موٹے موٹے مسائل پرجب گفتگو ہو گی تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی اور آپ کو‘ اِن شاء اللہ‘ الجبرا کے فارمولوں کی طرح وہ بات ہاتھ میں آ جائے گی کہ جس کے بعد ایسے بہت سے عقدے جو ہمارے ہاں عقائد کے ضمن میں پڑے ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے بڑی کھینچ تان ‘ کشمکش اور رسہ کشی ہے‘وہ تمام عقدے حل ہوتے چلے جائیں گے.

تیسرا شرک ہے 
’’شرک فی الحقوق‘‘ یعنی اللہ کے حقوق میں اس کے ساتھ شرک کرنا‘ کسی کو حقوق کے معاملے میں اس کا ساجھی بنانا یا اس کے برابر کرنا. ویسے تو اللہ تعالیٰ کے حقوق اگر گنے جائیں تو بہت ہو جاتے ہیں‘لیکن ’’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘‘ کے مصداق ایک لفظ ایسا بھی ہے کہ جس میں اللہ کے تمام حقوق جمع ہو جاتے ہیں اور وہ لفظ ’’عبادت‘‘ ہے‘ جو تمام انبیاء و رُسل علیہم السلام کی دعوت کا مرکزی نقطہ رہا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾ (البقرۃ) ’’اے لوگو!عبادت کرو اپنے ربّ کی جس نے پیدا کیا تم کو اور اُن کو جو تم سے پہلے گزرے ہیں‘ تاکہ تم بچ سکو‘‘.اور: یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ (ھود:۵۰۶۱۸۴’’اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو‘ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے.‘‘ اور : اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ وَ اَطِیۡعُوۡنِ ۙ﴿۳﴾ (نوح) ’’یہ کہ اللہ کی عبادت کرو‘ اور اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری پیروی کرو.‘‘

عبادت انسان کی غایتِ تخلیق ہے‘ اس کی زندگی کا مقصد ہے . ارشادِ الٰہی ہے : 
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذّٰریٰت) ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت (بندگی) کے لیے پیدا کیا.‘‘لہذ اس لفظ ’’عبادت‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق آ گئے. چنانچہ ’’شرک فی الحقوق‘‘ کو ’’شرک فی العبادت‘‘ کہا جا سکتا ہے.عبادت کے پانچ رُخ ہیں جن کے بارے میں بحث سے معلوم ہو جائے گا کہ شرک فی العبادت کی کون کون سی صورتیں ہیں. اس سے ہمیں اِن شاء اللہ موجودہ شرک کے علاوہ وہ قدیم شرک جو دنیا میں پائے گئے‘ ان سب کا فہم و شعور حاصل ہو جائے گا‘ بلکہ وہ بصیرت بھی پیدا ہو جائے گی کہ جس کے نتیجے میں آئندہ بھی اگر یہ مرض کسی اور صورت میں ظاہر ہوا تو اس کو سمجھنا اور پہچاننا آسان ہو جائے گا.