جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘یہ بدترین‘ عریاں ترین‘ گھناؤنا ترین اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین شرک ہے. دنیا میں اس شرک کی دو صورتیں رائج رہی ہیں. ایک کو مذہبی نوعیت کا شرک کہا جا سکتا ہے اور ایک کو فلسفیانہ نوعیت کا شرک.بلکہ صحیح ترتعبیر یہ ہو گی کہ پہلا شرک وہ ہے جو اُن قوموں میں پیدا ہوا جو اپنے آپ کو رسولوں سے منسوب کرتی ہیں اور آسمانی ہدایت پر یقین رکھتی ہیں. اور دوسرا شرک وہ ہے جو اُن قوموں میں پیدا ہوا کہ جن کے مذاہب کی اصل حقیقت فلسفیانہ ہے‘ کچھ حکماء اور فلاسفہ کے فکر اور سوچ پر اُن کے مذہب کی بنیاد قائم ہے. 

پہلی نوعیت کا شرک ہے کسی کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی قراردینا. ظاہر بات ہے کہ بیٹا یا بیٹی تو ہم جنس اور ہم نوع ہوئے!جیسے مغل کا بیٹا مغل ہے‘ انسان کا بیٹا انسان ہے اور گھوڑے کا بیٹا گھوڑاوغیرہ.معلوم ہوا کہ یہ نوع میں‘ جنس میں‘ مرتبہ میں‘ غرض ہر اعتبار سے بالکل برابری اور کفو والا معاملہ ہے‘ اور یہی وجہ ہے کہ اس نوع کے شرک پر اللہ تعالیٰ کا غضب بہت بھڑکتا ہے. اور یہ کس قدر قابل تعجب بات اور ستم ظریفی ہے کہ اس نوع کے شرک میں مبتلا وہ لوگ ہوئے جو نبیوں اور رسولوں کے ماننے والے ہیں‘ جو جلیل القدر پیغمبروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والے ہیں‘ آسمانی ہدایت کا دم بھرنے والے اوراللہ کی کتابوں کو ماننے والے ہیں. چنانچہ ایک طرف تو مشرکینِ عرب تھے جو اپنے آپ کو منسوب کرتے تھے اس موحّد اعظم حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃالسلام کی طرف ‘اور اُن کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم حنیفی ہیں‘ یعنی دین حنیف پر ہیں‘ وہی دین حنیف جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین تھا.اور ان کا حال یہ تھا کہ انہوں نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیا. 

دوسری طرف یہودیوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو 
’’ابن اللہ‘‘ کہا‘ انہیں اللہ کا بیٹا مانا گیا. تورات کو آپ پڑھ جایئے تو معلوم ہو گا کہ وہاں شرک کی مذمت اس قدر شدت کے ساتھ آئی ہے کہ شرک کو زنا کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے. وہاں بار بار آپ کو یہ تمثیل ملے گی کہ جیسے کسی شخص کی بیوی زنا کی مرتکب ہو اور اپنے شوہر سے بے وفائی کرے بالکل یہی طرزِ عمل ہے اُس شخص کا جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے وفائی کر رہا ہے اور شرک کر رہا ہے. حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بچھڑے کو اللہ کا شریک بنانے کی سزا کے طور پر ان لوگوں کے قتل کا حکم دیا تھا جنہوں نے شرک کا ارتکاب کیا تھا‘اور یہی وہ ارتداد کی سزا ہے جو ہمارے ہاں بھی موجود ہے. وہاں شرک کی پاداش میں ہزاروں اسرائیلیوں کو تہ تیغ کیا گیا. لیکن اسی قوم میں پھر یہ شرک پیدا ہوا کہ انہوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قراردے دیا. اور یہ مرض اور گمراہی اپنی انتہا اور نقطۂ عروج کو پہنچی ہے عیسائیوں کے ہاں جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا قرار دیا. یہودیوں میں تو صرف ایک دَور ایسا گزرا اور اُن کے کچھ مخصوص فرقے تھے جنہوں نے یہ شرک کیا ‘ مگر مسیحیت تو کُل کی کُل اسی عقیدے پر مبنی ہے‘ اور انہوں نے اس معاملے میں اس درجے غلو کیا ہے کہ حضرت عیسٰی بن مریم علیہما السلام کو صراحت کے ساتھ اللہ کا صلبی بیٹا قرار دیا اوران کے لیے لفظ ’’وَلَد‘‘ استعمال کیا. 

یہاں یہ بات ذہن میں رکھیے کہ 
’’اِبْن‘‘ کے لفظ میں دو احتمالات ہیں. عربی زبان میں ’’ابن‘‘ کسی تعلق اور نسبت کو بھی ظاہر کرتا ہے‘ اور ضروری نہیں کہ وہ باپ اور بیٹے ہی کی نسبت ہو .مثلاً آپ کسی کو ’’ابن ُ الوقت‘‘ کہتے ہیں تووہ وقت کا بیٹا نہیں ہے‘بلکہ اس کا بندھن اور تعلق وقت سے ہے ‘مرغِ باد نما ہے‘ ہوا اِدھر کی چل رہی ہو تو اِدھر کو اُس کا رُخ ہے‘ اُدھر کی چل پڑے تو اُدھر کو اس کا رُخ ہو جائے گا. اسی طرح ’’ابن ُ السبیل‘‘ کہتے ہیں راستہ چلنے والے مسافر کو.اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ راستے کا بیٹا ہے‘ بلکہ راستے کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘ چلا جا رہا ہے .تو ’’ابن‘‘ کا لفظ ذومعنیین ہے .اناجیلِ اربعہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ’’بیٹا‘‘ کے معنوں میں اپنے لیے بطور استعارہ لفظ ’’ابن‘‘ استعمال کرتے تھے . جیسے تورات میں شرک کے لیے زنا کی تمثیل ملتی ہے کہ جس طرح ایک بیوی زنا کا ارتکاب کرکے اپنے شوہر سے بے وفائی کرتی ہے‘ اسی طرح ایک شخص شرک کر کے اپنے ربّ سے بے وفائی کا مرتکب ہو رہا ہے. اسی طرح اس نسبت کو دیکھئے جو باپ اور بیٹے کے درمیان ہے کہ باپ بھی چونکہ اپنے بیٹے کو پالتا پوستااور پروان چڑھاتا ہے‘ اس کی پرورش کرتا ہے‘لہذا اسی نسبت سے حضرت مسیح ؑ نے اللہ کو مخلوق کا ربّ ہونے کی حیثیت سے آسمانی باپ اور انسانوں کو اُس کے بیٹے قرار دیا. اناجیل اربعہ میں یہ بات ملتی ہے کہ حضرت مسیح ؑ اللہ تعالیٰ کو جہاں ’’میرا آسمانی باپ‘‘ کہتے ہیں وہاں ’’تمہارا آسمانی باپ‘‘ بھی کہتے ہیں. ایسا قطعاً نہیں ہے کہ انہوں نے خصوصیت کے ساتھ (exclusively) اپنے ہی لیے لفظ ’’ابن‘‘استعمال کیا ہو‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کو ’’تمام نوعِ انسانی کا آسمانی باپ ‘‘ کہا گیا اور صرف استعارہ کے طور پر . لیکن عیسائیوں نے آگے بڑھا کر اس عقیدے کو جہاں پہنچایا ہے وہ لفظ ’’وَلَدٌ‘‘ ہے. ’’وَلَدٌ‘‘ کے معنی صرف صلبی اولاد کے ہیں‘ اور اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں. لفظ ’’وَلَدٌ‘‘ میں کسی استعارے یا کسی اور تعلق کا معاملہ بھی نہیں ہے. تو یہ جان لیجیے کہ قرآن مجید نے عیسائیوں کے بارے میں تو دونوں باتیں کہیں کہ انہوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو ’’ابنُ اللّٰہ‘‘ بھی قرار دیا اور ’’وَلَدُ اللّٰہ‘‘ بھی قرار دیا.جیسے اُن کا قول نقل ہوا: اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا (البقرۃ:۱۱۶و الکہف:۴. لیکن قرآن نے یہودیوں کے بارے میں صرف ایک الزام لگایا کہ انہوں نے حضرت عزیر علیہ السلام کو ’’ابن ُ اللہ‘‘ قرار دیا.اور مشرکین عرب کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیا.

اب آپ دیکھئے‘ سورۃ الاخلاص ‘ جو توحید کے موضوع پر جامع ترین سورۃ ہے‘ اس میں چار آیتوں میں سے پہلی دو آیتیں 
قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾ تو فلسفیانہ ہیں اور بہت بلند مفہوم کی حامل ہیں. لیکن آخری دو آیات جہاں آکر مضمون سب سے زیادہ نمایاں ہوتا ہے‘ وہ اسی نوع کے شرک سے متعلق ہیں اور اس کی نفی کر رہی ہیں: لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾ ’’نہ اُس نے جنا اور نہ وہ جنا گیا‘‘. تمام صلبی رشتوں سے وہ بالکل پاک ہے. نہ کوئی اس کا باپ ہے نہ کوئی اس کی ماں ہے‘ نہ کوئی اس کا بیٹا ہے اور نہ کوئی اس کی بیٹی ہے .اور پھر اس کا جومفہوم بیان کیا گیا‘ جو نتیجہ نکالا گیا ‘وہ ہے :وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴﴾ ’’اور اس کا کفو کوئی نہیں ہے‘‘. اس کے جوڑ کا کوئی نہیں ہے‘ اس کی برابری کا کوئی نہیں ہے‘ اس کا ہم پلہ کوئی نہیں ہے‘ اس کا ہم جنس کوئی نہیں ہے اوراس کی نوع کا کوئی نہیں ہے.

سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت جو شرک کے موضوع پربڑی جامع آیت ہے‘ جس میں شرک کی نفی کے چار اسلوب اختیار کیے گئے ‘ اس میں سب سے پہلا اسلوب یہی ہے : 
وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا … ’’اور (اے نبیؐ !) کہیے کہ تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے نہ کسی کو بیٹا بنایا…‘‘سورۂ بنی اسرائیل کے فوراً بعد سورۃ الکہف شروع ہوتی ہے. یہ دونوں سورتیں جڑواں ہیں اور حکمت قرآنی کے دو بہت بڑے خزانے ہیں جو قرآن مجید کے بالکل وسط میں موجود ہیں. سورۃ الکہف کے پہلے رکوع میں ذکر ہو رہا ہے :

وَّ یُنۡذِرَ الَّذِیۡنَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا ٭﴿۴﴾مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ وَّ لَا لِاٰبَآئِہِمۡ ؕ کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ؕ اِنۡ یَّقُوۡلُوۡنَ اِلَّا کَذِبًا ﴿۵

’’اور (اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے محمد پر یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے کہ ) وہ تنبیہہ کر دیں اُن کو جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا. ان کے پاس اس ضمن میں کوئی علم نہیں ہے اور نہ ان کے آباء کے پاس. بہت بڑی بات ہے جو اُن کے مُنہ سے نکلتی ہے اور وہ محض جھوٹ بکتے ہیں‘‘.

اس نوع کے شرک پر اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا یہ انداز اپنے پورے نقطۂ عروج کو پہنچ جاتا ہے اگلی سورۃ سورۂ مریم کے آخری رکوع میں. جو شخص عبارت کے تیور کو پہچانتا اور لہجے کے فرق کو جانتا ہو وہ بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہاں اللہ کا غیظ و غضب کس طرح بھڑکتا ہے. ارشادِ الٰہی ہے :

وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا ﴿ؕ۸۸﴾لَقَدۡ جِئۡتُمۡ شَیۡئًا اِدًّا ﴿ۙ۸۹﴾تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا ﴿ۙ۹۰﴾اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ ِ وَلَدًا ﴿ۚ۹۱﴾وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ﴿ؕ۹۲

’’انہوں نے کہا کہ رحمن نے کسی کو بیٹا بنا لیا ہے. تم ایک بڑی بھاری بات کر رہے ہو (بڑی جسارت اور بڑی ڈھٹائی کا معاملہ کر رہے ہو. یہ اس درجے کی جسارت اور ڈھٹائی ہے کہ )آسمان اس وجہ سے پھٹ پڑنے کو ہیں زمین شق ہونے کو ہے اور پہاڑ ایک دھماکے کے ساتھ گر پڑنے کو ہیں‘ اس با ت پر کہ انہوں نے رحمن کے لیے بیٹا قرار دیا‘ حالانکہ رحمن کے تو یہ شایانِ شان ہی نہیں ہے کہ وہ کسی کوبیٹا بنائے.‘‘ 

ان میں سے آخری آیت بہت قابل غور ہے. شایانِ شان نہ
 ہونے کی وجہ کیا ہے ؟ یہ بڑی سادہ سی بات ہے‘ لیکن پیش پا افتادہ حقائق بسا اوقات نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں. اولاد کی ضرورت اصل میں اس لیے ہوتی ہے کہ کوئی ہستی خود فانی ہو. اگر کسی کو بقاء اور دوام حاصل ہو اور اسے دنیا میں ہمیشہ کے لیے رہنا ہو تو اسے کسی اولاد کی ضرورت نہیں ہے. اولاد تو بقاءِ نوع اور بقاءِ نسل کے لیے ہے. جو فانی ہے وہ یہ محسوس کر سکتا ہے کہ میری اولاد کی شکل میں میری ہستی کا ایک تسلسل برقرار رہے گا. اسی لیے تو وہ روتے ہیں جن کے ہاں اولاد نہیں‘ خاص طو رپر جن کی اولادِ نرینہ نہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا نام مٹ جائے گا. یہی طعنہ تو دیا گیا تھا محمد رسول اللہ  کو کہ ان کی کوئی اولادِنرینہ نہیں‘ ان کا نام ختم ہو جائے گا‘ یہ تو ابتر ہیں‘ جس کے جواب میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی :
 
اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۱﴾فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ ؕ﴿۲﴾اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ٪﴿۳
’’(اے نبیؐ !) ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا کی ہے. پس اپنے ربّ کی نمازپڑھیے اور (اُسی کے نام کی) قربانی کیجیے. یقینا آپ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہو گا.‘‘

جبکہ اللہ تعالیٰ تو خود دائم ہے‘ قائم ہے‘ باقی ہے‘ 
الحی ّ القیّوم ہے‘ لہذا ظاہر بات ہے کہ یہ تصور ہی نہیں کیا جاسکتا کہ اسے بھی کسی اولاد کی احتیاج ہو.یہ ضرورت تو اصل میں ان کے لیے ہے جو فی نفسہٖ ‘ بذاتہٖ فانی ہیں. لہذا فرمایا گیا: وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ یَّتَّخِذَ وَلَدًا ﴿ؕ۹۲﴾ ’’اوررحمن کے تو یہ شایانِ شان ہی نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے‘‘. سورۃ الانعام کی بڑی پیاری آیت ہے : 

بَدِیۡعُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ اَنّٰی یَکُوۡنُ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَمۡ تَکُنۡ لَّہٗ صَاحِبَۃٌ ؕ (آیت ۱۰۲)

’’وہ تو آسمانوں اور زمین کا موجد ہے. اس کا کوئی بیٹا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ کوئی اس کی شریک زندگی (بیوی) ہی نہیں ہے؟‘‘
اس لیے کہ اللہ کے لیے بیٹا یا بیٹی مانو گے تو پہلے اس کے لیے کوئی بیوی بھی ماننا پڑے گی. لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اللہ کے لیے کوئی بھی بیوی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے. تو کیسے اس کے اولاد ہو جائے گی؟ وہ تو 
’’البدیع‘‘ ہے.یہاں ’’بدیع‘‘ کے دونوں مفہوم ذہن میں رکھئے. ایک مفہوم ہے کائنات کو عدمِ محض سے وجود بخشنے والا. بدیع کا دوسرا مفہوم ہے انوکھی چیز‘ بے مثل چیز. یہاں اللہ تعالیٰ کی وہ شان بھی ظاہر ہو رہی ہے کہ وہ بے مثل ہے‘ اپنی ذات میں بالکل انوکھا ہے‘ اس کی کوئی بیوی نہیں‘ تو اس کی اولاد کہاں سے ہوجائے گی؟
اس ضمن میں قرآن مجید نے مشرکین عرب کے ذکر میں کچھ لطیف طنز بھی کیے ہیں کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے تو بزعم خویش اللہ کو بیٹے دیے‘ لیکن تم نے تو کمال کیا کہ الاٹ بھی کیں تو بیٹیاں کیں! ارشادِ الٰہی ہے : 
اَفَاَصۡفٰىکُمۡ رَبُّکُمۡ بِالۡبَنِیۡنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنَاثًا ؕ اِنَّکُمۡ لَتَقُوۡلُوۡنَ قَوۡلًا عَظِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾ (بنی اسرائیل) ’’(یہ بڑی عجیب بات ہے کہ) تمہارے ربّ نے تمہیں توبیٹے عطا کر دیے‘ اور خود اپنے لیے اس نے فرشتوں کو بیٹیاں بنالیا؟ یقینا تم بڑی بھاری بات اپنی زبان سے نکال رہے ہو.‘‘سورۃ النجم میں فرمایا گیا: اَلَکُمُ الذَّکَرُ وَ لَہُ الۡاُنۡثٰی ﴿۲۱﴾تِلۡکَ اِذًا قِسۡمَۃٌ ضِیۡزٰی ﴿۲۲﴾ ’’کیا تمہارے لیے بیٹے ہیں اور اس کے لیے بیٹیاں؟ یہ تقسیم تو بڑی ہی غیر منصفانہ ہے.‘‘ اس لیے کہ تم نے اسے الاٹ بھی کی ہیں تو بیٹیاں کی ہیں. یہی بات سورۃ الصّٰفّٰت میں یوں فرمائی گئی :

اَصۡطَفَی الۡبَنَاتِ عَلَی الۡبَنِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾ؕمَا لَکُمۡ ۟ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ ﴿۱۵۴
’’کیا اللہ تعالیٰ نے بیٹوںکو چھوڑ کر (اپنے لیے) بیٹیاں اختیار کر لیں؟ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ کیسے حکم لگا رہے ہو؟‘‘

البتہ یہ بات مسلّمہ ہے کہ گزشتہ اقوام میں سے جو قومیں بھی شرک فی الذات میں مبتلا ہوئیں ان میں سے کسی نے بھی اللہ کے لیے بیوی تسلیم نہیں کی. 

عیسائیت کے بارے میں یہ بات جان لیجیے کہ اگرچہ عیسائیوں میں اس شرک 
’’شرک فی الذات‘‘ نے سب سے زیادہ بدترین صورت اختیار کی اور یہ شرک اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا‘ لیکن عیسائیوں میں بھی جو دو تثلیثیں رائج رہی ہیں اُن میں پہلی تثلیث (Trinity) جو ابتدا میں زیادہ مانی جاتی تھی وہ یہ ہے : 

.God the Father, Mary the mother and Jesus the son
یعنی باپ ‘بیٹا اور ماں تین الٰہ ہیں اور اس تثلیث میں حضرت مریم سلامٌ علیہا ماں کے رشتے سے الوہیت میں شریک ہیں‘ خدا کی بیوی ہونے کی حیثیت سے نہیں! اور اس میں بڑا فرق ہے. اِس جدید دور میں اس تثلیث کو ماننے والے بہت کم عیسائی ہیں . اب جو تثلیث رائج ہے‘ جو نسبتاً زیادہ فلسفیانہ ہے‘ وہ یہ ہے : 

.(God the Father, Jesus the son and the Holy Spirit (Ruh-ul-Qudus
یعنی باپ‘ بیٹا اور روح القدس. اس تثلیث میں سے حضرت مریم سلامٌ علیہا کو نکال دیا گیا ہے. اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اس شائبہ سے بچنے کے لیے کیا گیا جو اللہ کے لیے بیوی ہونے کا ہو سکتا تھا. کیونکہ انسانی ذہن غیر شعوری طور پر اُدھر منتقل ہو سکتا تھا اور یہ انسانی ذہن کو بہت برا اور نامناسب محسوس ہوتا ہے. چنانچہ اب جو تثلیث عیسائیوں کے ہاں رائج ہے‘ وہ ہے ’’باپ ‘ بیٹا اور روح القدس‘‘ کی تثلیث.